Saturday 10 February 2018

درد ترا کیا خاک سنبھالیں دل تو اپنے ہات نہیں ہے

درد ترا کیا خاک سنبھالیں، دل تو اپنے ہات نہیں ہے
سو باتوں کی بات یہی ہے تیرے نام کی گھات نہیں ہے
ایک پلندا خط کا اس کے پڑھ کر یہ محسوس ہوا ہے 
لفظوں کی تکرار ہے ساری، بات میں کوئی بات نہیں ہے 
وقت کے جب اسرار کھلیں گے منہ سب دیکھتے رہ جائیں گے 
کچھ زخموں پر پھاہا رکھنا لفظوں کی اوقات نہیں ہے 
عشق کا اندھا باوا غم کا سوتر لے کر ناچ رہا ہے 
ایسی ڈور کو سلجھانا تو دانش تیرے ہات نہیں ہے
جس پر تیرا نام لکھا تھا، پیڑ وہ کب کا سوکھ چکا ہے 
درد و غم کی کلیاں تو ہیں پیڑ پہ کوئی پات نہیں ہے

سعدیہ بشیر

No comments:

Post a Comment