وحشت رفتہ رفتہ مجھ میں خاک اڑا کے بیٹھی ہے
دھڑکن خاموشی کی صورت شور مچا کے بیٹھی ہے
رات تمناؤں کے زیور تن پہ میرے سجتے رہے
صبحِ حسرت من کو نیا گہنا پہنا کے بیٹھی ہے
چوبِ جاں سے دیر تلک کل رات دھواں اٹھتے دیکھا
عطر فروش! میں یاد کی خوشبو مثلِ صبا لئے پھرتی ہوں
اس کے پیراہن کی خوشبو مجھ میں آ کے بیٹھی ہے
موجۂ وقت! طلب کا دریا سوکھنے دے، آواز نہ دے
جیسے ماں پیاسے بچے کو ابھی سلا کے بیٹھی ہے
کمرے کے دیوار و در کے شور سے بچنے کی خاطر
تنہائی خاموشی سے کھڑکی میں جا کے بیٹھی ہے
تسنیم عابدی
No comments:
Post a Comment