Saturday, 10 February 2018

وحشت رفتہ رفتہ مجھ میں خاک اڑا کے بیٹھی ہے

وحشت رفتہ رفتہ مجھ میں خاک اڑا کے بیٹھی ہے
دھڑکن خاموشی کی صورت شور مچا کے بیٹھی ہے
رات تمناؤں کے زیور تن پہ میرے سجتے رہے
صبحِ حسرت من کو نیا گہنا پہنا کے بیٹھی ہے
چوبِ جاں سے دیر تلک کل رات دھواں اٹھتے دیکھا
خیمۂ دل کو ایک تمنا آگ لگا کے بیٹھی ہے
عطر فروش! میں یاد کی خوشبو مثلِ صبا لئے پھرتی ہوں
اس کے پیراہن کی خوشبو مجھ میں آ کے بیٹھی ہے
موجۂ وقت! طلب کا دریا سوکھنے دے، آواز نہ دے
جیسے ماں پیاسے بچے کو ابھی سلا کے بیٹھی ہے
کمرے کے دیوار و در کے شور سے بچنے کی خاطر
تنہائی خاموشی سے کھڑکی میں جا کے بیٹھی ہے

تسنیم عابدی

No comments:

Post a Comment