جل جانے کی حسرت بھی ہو پانی میں بھی رہنا
کچھ سہل نہیں عہدِ جوانی میں بھی رہنا
یہ کیا کہ رہے تازہ رفاقت کی للک بھی
اور محو کسی یاد پرانی میں بھی رہنا
کردار ہی ایسا تھا کہ اے صاحبِ تمثیل
اچھا نہ لگا ہم کو کہانی میں بھی رہنا
گیت
گھر واپس جب آؤ گے تم
کون تمہیں پہچانے گا
کون کہے گا، تم بِن ساجن
یہ نگری سنسان
بِن دستک دروازہ گم سم، بِن آہٹ دہلیز
سونے چاند کو تکتے تکتے راہیں پڑ گئی ماند
چشمِ بے خواب پہ خوابوں کا اثر لگتا ہے
کیسی پت جھڑ ہے کہ شاخوں پہ ثمر لگتا ہے
نیند اب چشمِ گراں بار کی دہلیز پہ ہے
جسم میں کھلتا ہوا خواب کا در لگتا ہے
مہلتِ عمر بس اتنی تھی کہ گزرا ہوا وقت
اک ڈھلکتے ہوئے آنسو کا سفر لگتا ہے