Saturday 30 May 2015

آ اسی جھیل کے کنارے آ


آ، اسی جھیل کے کنارے آ
آ، مِرے پیار کے سہارے آ
آ، کہ ٹوٹے سکوت لہروں کا
آ، کہ بہنے لگیں یہ دھارے، آ
آ، کہ دل کو قرار آ جائے
آ، کہ دل بولے آرے آ، آرے آ

آیت جاں سے در دل کو اجالے رکھوں

آیتِ جاں سے درِ دل کو اجالے رکھوں
مثلِ تعویذ گلے میں اسے ڈالے رکھوں
اس کے آنچل کی مہک چھونے لگی میرا بدن
اپنی بانہوں میں ہواؤں کو سنبھالے رکھوں
آ! مرے چاند نہ لگ جائے ستاروں کی نظر
میں ترے گِرد مناجات کے ہالے رکھوں

شفق یقین کی جب آسماں سے پھوٹے گی

شفق یقین کی جب آسماں سے پھوٹے گی
تو روشنی ہی مِرے جسم و جاں سے پھوٹے گی
زمینِ دل پہ جو برسیں گے یاد کے بادل
تِرے خیال کی خوشبو یہاں سے پھوٹے گی
وہ جس نے آگ کو گلزار سے بدل ڈالا
مِری کہانی اُسی داستاں سے پھوٹے گی

گم سم گم سم سے رہتے ہیں ہم دل کا جانی کھو بیٹھے

گم سم گم سم سے رہتے ہیں ہم دل کا جانی کھو بیٹھے
آنکھوں سے خون ٹپکتا ہے، آنکھوں کا پانی کھو بیٹھے
جو دل میں جوت جگاتی تھی، جو شب بھر نور لٹاتی تھی
جو تیرے گھر تک آتی تھی، وہ راہ پرانی کھو بیٹھے تھے
سکھ اور دکھ کی برسات کریں، جو چاہیں اب حالات کریں
خاموش رہیں یا بات کریں، کردار کہانی کھو بیٹھے

اے مری نیند مجھے خواب سے اب یاد میں لا

اے مِری نیند مجھے خواب سے اب یاد میں لا
کنجِ ویراں سے اٹھا خطۂ آباد میں لا
منکرِ صبر نہیں ہیں مگر اے صبر فشاں
صبر کرنے کی دوا کو کسی معیاد میں لا
بکھرے بکھرے ہوئے خاکوں میں ہیں بکھرے سے نقوش
میرے چہرے کو کبھی موسمِ ایجاد میں لا

یہ پیاس پانی میں تحلیل ہونے والی ہے

یہ پیاس پانی میں تحلیل ہونے والی ہے
اب اضطراب کی تکمیل ہونے والی ہے
ابھر رہا ہے کہیں کوہِ ہجر سے سورج
جدائی وصل میں تبدیل ہونے والی ہے
کنول کھلیں گے جہاں خاکِ ہجر اڑتی تھی
وہ آنکھ دشت سے اب جھیل ہونے والی ہے

خوں میں لتھڑی ہوئی پوشاک سحر ملتی ہے

خوں میں لتھڑی ہوئی پوشاکِ سحر ملتی ہے
بند بوری میں کٹی لاشِ بشر ملتی ہے
خوف کے سائے نظر آتے ہیں ہر چہرے پر
سہمی سہمی ہوئی ہر راہگزر ملتی ہے
محوِ رقص اژدہے سفاکی و دہشت کے ملیں
فاختہ گریہ کناں شہر بدر ملتی ہے

Friday 29 May 2015

رنگ بدلا یار نے وہ پیار کی باتیں گئیں

رنگ بدلا یار نے، وہ پیار کی باتیں گئیں
وہ ملاقاتیں گئیں، وہ چاندنی راتیں گئیں
پی تو لیتا ہوں مگر پینے کی وہ باتیں گئیں
وہ جوانی، وہ سِیہ مستی، وہ برساتیں گئیں
اللہ، اللہ، کہہ کے بس اِک آہ کرنا رہ گیا
وہ نمازیں، وہ دعائیں، وہ مناجاتیں گئیں

دو روز میں شباب کا عالم گزر گیا

دو روز میں شباب کا عالم گزر گیا
“بدنام کرنے آیا تھا، بدنام کر گیا”
بیمارِ غم، مسِیحا کو حیران کر گیا
اٹھا، جھکا، سلام کِیا، گِر کے مر گیا
گزرے ہوئے زمانے کا اب تذکرہ ہی کیا
اچھا گزر گیا، بہت اچھا گزر گیا

بدل سکا نہ جدائی کے غم اٹھا کر بھی ​

بدل سکا نہ جدائی کے غم اٹھا کر بھی ​
کہ میں تو میں ہی رہا تجھ سے دور جا کر بھی​
میں سخت جان تھا اس کرب سے بھی بچ نکلا​
میں جی رہا ہوں تجھے ہاتھ سے گنوا کر بھی​
خدا کرے، تجھے دوری ہی راس آ جائے​
تُو کیا کرے گا بھلا اب یہاں پہ آ کر بھی​

جو سیلِ درد اٹھا تھا وہ جان چھوڑ گیا​

جو سیلِ درد اٹھا تھا، وہ جان چھوڑ گیا​
مگر وہ جسم پہ اپنا نشان چھوڑ گیا​
ہر ایک چیز میں خوشبو ہے اسکے ہونے کی
عجب نشانیاں وہ مِرا میہمان چھوڑ گیا
ذرا سی دیر کو بیٹھا، جھکا گیا شاخیں​
پرندہ پیڑ میں اپنی تھکان چھوڑ گیا​

مکان دل سے جو اٹھتا تھا وہ دھواں بھی گیا

مکانِ دل سے جو اٹھتا تھا وہ دھواں بھی گیا
بُجھی جو آتشِ جاں، زِیست نشاں بھی گیا
بہت پناہ تھی اس گھر کی چھت کے سائے میں
وہاں سے نکلے تو پھر سر سے آسماں بھی گیا
بڑھا کچھ اور تجسس، جلا کچھ اور بھی ذہن
حقیقتوں کے تعاقب میں، میں جہاں بھی گیا

وقت خوش خوش کاٹنے کا مشورہ دیتے ہوئے

وقت خوش خوش کاٹنے کا مشورہ دیتے ہوئے
رو پڑا وہ آپ، مجھ کو حوصلہ دیتے ہوئے
اس سے کب دیکھی گئ تھی میرے رُخ کی مُردنی
پھیر لیتا تھا وہ منہ، مجھ کو دوا دیتے ہوئے
خوابِ بے تعبیر سی سوچیں مِرے کس کام کی
سوچتا اتنا تو وہ دستِ عطا دیتے ہوئے

نشان قافلہ در قافلہ رہے گا مرا

نشان قافلہ در قافلہ رہے گا مِرا
جہاں ہے گردِ سفر، سِلسلہ رہے گا مِرا
مجھے نہ تُو نے مِری زندگی گزارنے دی
زمانے! تجھ سے ہمیشہ گِلہ رہے گا مِرا
سِیہ دلوں میں ستاروں کی فصل بونے کو
ہنر چراغ کی لَو سے مِلا رہے گا مِرا

تم غلط سمجھے ہمیں اور پریشانی ہے

تم غلط سمجھے، ہمیں اور پریشانی ہے
یہ تو آسانی ہے جو بے سر و سامانی ہے
خواہشِ دِید سرِ وصل جو نکلی نہیں تھی
لمحۂ ہجر میں تجرید کی عریانی ہے
کیوں بھلا بوجھ اٹھاؤں میں تِرے خوابوں کا
میرے آئینے میں کیا کم کوئی حیرانی یے

رہین خواب ہوں اور خواب کے مکاں میں ہوں

رہینِ خواب ہوں اور خواب کے مکاں میں ہوں
جہان مجھ سے سوا ہے، میں جس جہاں میں ہوں
عجب طرح کا خِرد خیز ہے جنوں میرا
مجھے خبر ہے، میں کارِ رائیگاں میں ہوں
تُو مجھ کو پھینک چکا کب کا اپنے دشمن پر
میں اب کماں میں نہیں ہوں، تِرے گماں میں ہوں

Thursday 28 May 2015

گزرے ہوئے طویل زمانے کے بعد بھی

گزرے ہوئے طویل زمانے کے بعد بھی
دل میں رہا وہ چھوڑ کے جانے کے بعد بھی
پہلو میں رہ کے دل نے دیا ہے بہت فریب
رکھا ہے اس کو یاد بھلانے کے بعد بھی
وہ حسن ہے، کسی میں نہیں تابِ دید کی
پنہاں ہے وہ نقاب اٹھانے کے بعد بھی

نہ کوئی رنگ نہ ہاتھوں میں حنا میرے بعد

نہ کوئی رنگ نہ ہاتھوں میں حنا میرے بعد
وہ مکمل ہی سِیہ پوش ہوا میرے بعد
لےکے جاتا رہا ہر شام وہ پھول اور چراغ
بس یہی اس نے کِیا، جتنا جِیا میرے بعد
روز جا کر وہ سمندر کے کنارے چپ چاپ
ناؤ کاغذ کی بہاتا ہی رہا میرے بعد

کتنا حسین پھر سے نظارہ بنا دیا

کتنا حسین پھر سے نظارہ بنا دیا
جیسے خدا نے اس کو دوبارہ بنا دیا
آیا تھا امتحان میں مضمون حسن پر
پرچے میں سب نے چہرہ تمہارا بنا دیا
کشتی کو آسرا کوئی تھوڑا سا تو رہے
رنگوں سے بادباں پہ کنارہ بنا دیا

آنکھوں میں آنسوؤں کو ابھرنے نہیں دیا​

آنکھوں میں آنسوؤں کو ابھرنے نہیں دیا​
مٹی میں موتیوں کو بکھرنے نہیں دیا​
جس راہ پر پڑے تھے تِرے پاؤں کے نشاں​
اس راہ سے کسی کو گزرنے نہیں دیا​
چاہا تو چاہتوں کی حدوں سے گزر گئے​
نشہ محبتوں کا اترنے نہیں دیا​

فلک سے خاک پر لایا گیا ہوں

فلک سے خاک پر لایا گیا ہوں
کہاں کھویا، کہاں پایا گیا ہوں
میں زیور ہوں عروسِ زِندگی کا
بڑے تیور سے پہنایا گیا ہوں
نہیں عرض و گزارش میرا شیوہ
صدائے کُن میں فرمایا گیا ہوں

گزر گیا جو زمانہ اسے بھلا ہی دو

گزر گیا جو زمانہ اسے بھُلا ہی دو
جو نقش بن نہیں سکتا سے مِٹا ہی دو
کھُلے گا ترکِ تعلق کے بعد بابِ فنا
یہ آخری پردہ بھی اب اُٹھا ہی دو
رُکی رُکی سی ہوا ہے، تھکا سا تھکا سا چاند
وفا کے دشت میں حیراں کھڑے ہیں راہی دو

میں ‌تیرے سنگ کیسے چلوں سجنا

میں ‌تیرے سنگ کیسے چلوں سجنا
تُو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا
تُو میرا ہاتھ ہاتھوں میں لے کے چلے، مہربانی تیری
تیری آہٹ سے دل کا درِیچہ کھلے، میں دیوانی تیری
تُوغبارِ سفر، میں خِزاں کی صدا
تُو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا

ہم تھے ہمارے ساتھ کوئی تیسرا نہ تھا

ہم تھے، ہمارے ساتھ کوئی تیسرا نہ تھا
ایسا حسِین دن کہیں دیکھا سنا نہ تھا
آنکھوں میں اس کی تَیر رہے تھے حیا کے رنگ
پلکیں اٹھا کے میری طرف دیکھتا نہ تھا
کچھ ایسے اس کی جِھیل سی آنکھیں تھیں ہر طرف
ہم کو سوائے ڈوبنے کے راستہ نہ تھا

دام خوشبو میں گرفتار صبا ہے کب سے

دامِ خوشبو میں گرفتار صبا ہے کب سے
لفظ، اظہار کی الجھن میں پڑا ہے کب سے
اے کڑی چُپ کے در و بام سجانے والے
منتظر کوئی سرِ کوہِ ندا ہے کب سے
چاند بھی میری طرح حسن شناسا نِکلا
اس کی دیوار پہ حیران کھڑا ہے کب سے

زندگی کے میلے میں خواہشوں کے ریلے میں

زندگی کے میلے میں، خواہشوں کے ریلے میں
تم سے کیا کہیں جاناں! اس قدر جھمیلے میں
وقت کی روانی ہے، بخت کی گرانی ہے
سخت بے زمینی ہے، سخت لامکانی ہے
ہجر کے سمندر میں
تخت اور تختے کی ایک ہی کہانی ہے

چپکے چپکے جل جاتے ہيں لوگ محبت کرنے والے

چپکے چپکے جل جاتے ہيں لوگ محبت کرنے والے
پُروا سنگ نکل جاتے ہيں، لوگ محبت کرنے والے
آنکھوں آنکھوں چل پڑتے ہيں تاروں کی قنديل لئے
چاند کے ساتھ ہی ڈھل جاتے ہيں لوگ محبت کرنے والے
دل ميں پھول کھلا ديتے ہيں لوگ محبت کرنے والے
آگ ميں راگ جگاتے ديتے ہيں لوگ محبت کرنے والے

تیرے ارد گرد وہ شور تھا مری بات بیچ میں رہ گئی

تیرے اِرد گِرد وہ شور تھا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
نہ میں کہہ سکا نہ تُو سن سکا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
میرے دل کو درد سے بھر گیا، مجھے بے یقین سا کر گیا
تیرا بات بات پہ ٹوکنا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
تِرے شہر میں مِرا ہمسفر، وہ دُکھوں جمِ غفیر تھا
مجھے راستہ نہیں مِل سکا، مِری بات بیچ میں رہ گئی

حساب عمر کا اتنا سا گوشوارا ہے

حسابِ عمر کا اتنا سا گوشوارا ہے
تمہیں نکال کے دیکھا تو سب خسارا ہے
کسی چراغ میں ہم ہیں، کسی کنول میں ہو تم
کہیں جمال ہمارا، کہیں تمہارا ہے
وہ کیا وصال کا لمحہ تھا جس کے نشے میں
تمام عمر کی فرقت ہمیں گوارا ہے

ظاہر شمال میں کوئی تارا ہوا تو ہے

ظاہر شمال میں کوئی تارا ہُوا تو ہے
اِذنِ سفر کا ایک اشارا ہُوا تو ہے
کیا ہے، جو رکھ دیں آخری داؤ میں نقدِ جاں
ویسے بھی ہم نے کھیل ہارا ہُوا تو ہے
وہ جان، اس کو خیر خبر ہے بھی یا نہیں
دِل ہم نے اس کے نام پہ وارا ہُوا تو ہے

ہم ہی کچھ کار محبت میں تھے انجان بہت​

ہم ہی کچھ کارِ محبت میں تھے انجان بہت​
ورنہ نِکلے تھے تِرے وصل کے عنوان بہت​
دل بھی کیا چیز ہے اب پا کے اسے سوچتا ہوں​
کیا اسی واسطے چھانے تھے بیابان بہت​
فاصلے راہِ تعلق کے مِٹیں گے کیونکر​
حُسن پابندِ انا، عشق تن آسان بہت​

کوئی بھی لمحہ کبھی لوٹ کر نہیں آیا

کوئی بھی لمحہ کبھی لوٹ کر نہیں آیا
وہ شخص ایسا گیا، پھر نظر نہیں آیا
وفا کے دشت میں رَستہ نہیں مِلا کوئی
سوائے گردِ سفر، ہمسفر نہیں آیا
پلٹ کے آنے لگے شام کے پرندے بھی
ہمارا صُبح کا بُھولا مگر نہیں آیا

Wednesday 27 May 2015

امید کے افق سے نہ اٹھا غبار تک

امید کے افق سے نہ اٹھا غبار تک
دیکھی اگرچہ راہ، خزاں سے بہار تک
رکھنے کو تیرے وعدۂ نامعتبر کی لاج
جھیلی ہے دل نے زحمتِ صبر و قرار تک
دیکھا ہے کس نے منہ سحرِ جلوہ ساز کا
سب ولولے ہیں ایک شبِ انتظار تک

اک مہک سی دم تحریر کہاں سے آئی

اِک مہک سی دمِ تحریر کہاں سے آئی
نام میں تیرے یہ تاثیر کہاں سے آئی
پہلوئے ساز سے اِک موجِ ہوا گزری تھی
یہ چھنکتی ہوئی زنجیر کہاں سے آئی
دَم ہمارا تو رہا حلقۂ لب ہی میں اسیر
بُوئے گل یہ تِری تقدیر کہاں سے آئی

جھپکی ذرا جو آنکھ، جوانی گزر گئی

جھپکی ذرا جو آنکھ، جوانی گزر گئی
بدلی کی چھاؤں تھی، اِدھر آئی اُدھر گئی
مشاطۂ بہار عجب گُل کتر گئی
منہ بند جو کلی تھی، کِھلی اور سنور گئی
پیشِ جمالِ یار، کِرن آفتاب کی
شرما کے چاہتی تھی کہ پلٹے، بِکھر گئی

غم نہیں مجھ کو جو وقت امتحاں مارا گیا

غم نہیں مجھ کو جو وقتِ امتحاں مارا گیا
خوش ہوں تیرے ہاتھ سے اے جانِ جاں! مارا گیا
تیغِ ابرو سے دلِ عاشق کو ملتی کیا پناہ
جو چڑھا منہ پر اجل کے بے گماں مارا گیا
منزلِ معشوق تک پہنچا سلامت کب کوئی
رہزنوں سے کارواں کا کارواں مارا گیا

دل کا رونا ٹھیک نہیں ہے منہ کو کلیجا آنے دو

دل کا رونا ٹھیک نہیں ہے، منہ کو کلیجا آنے دو
تھمتے ہی تھمتے اشک تھمیں گے، ناصح کو سمجھانے دو
کہتے ہی کہتے حال کہیں گے، ایسی تمہیں کیا جلدی ہے
دل کو ٹھکانے ہونے دو اور آپ میں ہم کو آنے دو
بزمِ طرب میں دیکھ کے مجھ کو پھیر لیں آنکھیں ساقی نے
میرے لیے تھے زہرِ ہلاہل، اس کے بھرے پیمانے دو

حجاب رنگ و بو ہے اور میں ہوں

حجابِ رنگ و بُو ہے، اور میں ہوں 
یہ دھوکا تھا کہ تُو ہے، اور میں ہوں
مقامِ بے نیازی، آ گیا ہے 
وہ جانِ آرزو ہے، اور میں ہوں
فریبِ شوق سے اکثر یہ سمجھا 
کہ وہ بیگانہ خُو ہے اور میں ہوں

روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے

روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے
چاند پاگل ہے اندھیرے میں نکل پڑتا ہے
ایک دیوانہ مسافر ہے میری آنکھوں میں
وقت بے وقت ٹھہر جاتا ہے، چل پڑتا ہے
اپنی تعبیر کے چکر میں میرا جاگتا خواب
روز سورج کی طرح گھر سے نکل پڑتا ہے

اس کی کتھئی آنکھوں میں ہیں جنتر منتر سب

اس کی کتھئی آنکھوں میں ہیں جنتر منتر سب
چاقو واقو، چھریاں وریاں، خنجر ونجر سب
جس دن سے تم روٹھیں، مجھ سے روٹھے روٹھے ہیں
چادر وادر، تکیہ وکیہ، بستر وستر سب
مجھ سے بچھڑ کے وہ بھی کہاں اب پہلے جیسی ہے
پھیکے پڑ گئے کپڑے وپڑے، زیور ویور سب

ہاتھ خالی ہیں ترے شہر سے جاتے جاتے

ہاتھ خالی ہیں تِرے شہر سے جاتے جاتے
جان ہوتی تو میری جان! لٹاتے جاتے
اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے
عمر گزری ہے تِرے شہر میں آتے جاتے
رِینگنے کی بھی اجازت نہیں ہم کو، ورنہ
ہم جدھر جاتے، نئے پھول کھلاتے جاتے

اپنے ہونے کا ہم اس طرح پتہ دیتے تھے

اپنے ہونے کا ہم اس طرح پتا دیتے تھے
خاک مٹھی میں اٹھاتے تھے اڑا دیتے تھے
بے ثمر جان کے ہم کاٹ چکے ہیں جو شجر
یاد آتے ہیں کہ بے چارے ہوا دیتے تھے
اس کی محفل میں وہی سچ تھا وہ جو کچھ بھی کہے
ہم بھی گونگوں کی طرح ہاتھ اٹھا دیتے تھے

در بدر جو تھے وہ دیواروں کے مالک ہو گئے

در بدر جو تھے وہ دیواروں کے مالک ہو گئے 
میرے سب دربان، درباروں کے مالک ہو گئے
لفظ گونگے ہو گئے، تحریر اندھی ہو چکی 
جتنے مخبر تھے، وہ اخباروں کے مالک ہو گئے
لال سورج آسمان سے گھر کی چھت پر آ گیا 
جتنے تھے بیکار، سب کاروں کے مالک ہو گئے

جہالتوں کے اندھیرے مٹا کے لوٹ آیا

جہالتوں کے اندھیرے مِٹا کے لوٹ آیا
میں، آج ساری کتابیں جلا کے لوٹ آیا
یہ سوچ کر کہ وہ تنہائی ساتھ لائے گا
میں چھت پہ بیٹھے پرندے اڑا کے لوٹ آیا
وہ اب بھی ریل میں بیٹھی سِسک رہی ہو گی
میں اپنا ہاتھ ہوا میں ہلا کے لوٹ آیا

چمکتے لفظ ستاروں سے چھین لائے ہیں

چمکتے لفظ ستاروں سے چھین لائے ہیں
ہم آسماں سے غزل کی زمین لائے ہیں
وہ اور ہوں گے جو خنجر چھپا کے لائے ہیں
ہم اپنے ساتھ پھٹی آستین لائے ہیں
ہماری بات کی گہرائی خاک سمجھیں گے
جو پربتوں کے لیے خوردبین لائے ہیں

وہ بالادست سہی قبضے میں جان تھوڑی ہے

وہ بالادست سہی قبضے میں جان تھوڑی ہے
فقط ہے شاہ کا حکم، یہ اذان تھوڑی ہے
جو میرے لٹنے کا سن کر کہیں ہنسا ہے بہت
اسے بتا دو، کسی کو امان تھوڑی ہے
تمہیں میں اب بھی سمجھتا ہوں غمگسار اپنا
تمہاری دوستی پر میرا دھیان تھوڑی ہے

صرف خنجر ہی نہیں آنکھوں میں پانی چاہیئے

صرف خنجر ہی نہیں آنکھوں میں پانی چاہیے
اے خدا! دشمن بھی مجھ کو خاندانی چاہیے
میں نے اے سورج! تجھے پوجا نہیں سمجھا تو ہے
میرے حصے میں بھی تھوڑی دھوپ آنی چاہیے
میری قیمت کون دے سکتا ہے اس بازار میں
تم زلیخا ہو، تمہیں قیمت لگانی چاہیے

یہ زندگی کسی گونگے کا خواب ہے بیٹا

یہ زندگی کسی گونگے کا خواب ہے بیٹا
سنبھل کر چلنا کہ رستہ خراب ہے بیٹا
ہمارا نام لکھا ہے پرانے قلعوں پر
مگر ہمارا مقدر خراب ہے بیٹا
گناہ کرنا کسی بے گناہ کی خاطر
مِری نگاہ میں کارِ ثواب ہے بیٹا

شہر کیا دیکھیں کہ ہر منظر میں جالے پڑ گئے

شہر کیا دیکھیں کہ ہر منظر میں جالے پڑ گئے
ایسی گرمی ہے کہ پیلے پھول کالے پڑ گئے
میں اندھیروں سے بچا لایا تھا اپنے آپ کو
میرا دکھ یہ ہے میرے پیچھے اجالے پڑ گئے
جن زمیںوں کی قبالے ہیں مِرے پُرکھوں کے نام
ان زمینوں پر مِرے جینے کے لالے پڑ گئے

میرے اشکوں نے کئی آنکھوں کو جل تھل کر دیا

میرے اشکوں نے کئی آنکھوں کو جل تھل کر دیا 
ایک پاگل نے بہت لوگوں کو پاگل کر دیا
اپنی پلکوں پر سجا کر میرے آنسو آپ نے 
راستے کی دھول کو آنکھوں کا کاجل کر دیا
میں نے دل دے کر اسے کی تھی وفا کی ابتدا 
اس نے دھوکا دے کے یہ قصہ مکمل کر دیا

میرے کاروبار میں سب نے بڑی امداد کی

میرے کاروبار میں سب نے بڑی امداد کی
داد لوگوں کی، گلا اپنا، غزل استاد کی
اپنی سانسیں بیچ کر میں نے جسے آباد کی
وہ گلی جنت تو اب بھی ہے، مگر شداد کی
عمر بھر چلتے رہے آنکھوں پہ پٹی باندھ کر
زندگی کو ڈھونڈنے میں زندگی برباد کی

اگر خلاف ہیں ہونے دو جان تھوڑی ہے

اگر خلاف ہیں، ہونے دو، جان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے، کوئی آسمان تھوڑی ہے
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں لیکن
ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے

Monday 25 May 2015

تمہارے جسم کی خوشبو گلوں سے آتی ہے

تمہارے جسم کی خوشبو گُلوں سے آتی ہے
خبر تمہاری بھی اب دوسروں سے آتی ہے
ہمیں اکیلے نہیں جاگتے ہیں راتوں میں
اُسے بھی نیند بڑی مشکلوں سے آتی ہے
ہماری آنکھوں کو میلا تو کر دیا ہے، مگر
محبتوں میں چمک آنسوؤں سے آتی ہے

پیروں کو میرے دیدۂ تر باندھے ہوئے ہے

پیروں کو میرے دیدۂ تر باندھے ہوئے ہے
زنجیر کی صورت مجھے گھر باندھے ہوئے ہے
ہر چہرے میں آتا ہے نظر ایک ہی چہرہ
لگتا ہے کوئی میری نظر باندھے ہوئے ہے
بچھڑیں گے تو مر جائیں گے ہم دونوں بچھڑ کر
اک ڈور میں ہم کو یہی ڈر باندھے ہوئے ہے

خون رلوائے گی یہ جنگل پرستی ایک دن

خون رُلوائے گی یہ جنگل پرستی ایک دن
سب چلے جائیں گے خالی کر کے بستی ایک دن
چُوستا رہتا ہے رس بھونرا ابھی تک دیکھ لو
پھُول نے بھُولے سے کی تھی سرپرستی ایک دن
دینے والے نے طبیعت کیا عجب دی ہے اسے
ایک دن خانہ بدوشی، گھر گرہستی ایک دن

جرأت سے ہر نتیجے کی پروا کیے بغیر

جرأت سے ہر نتیجے کی پرواہ کیے بغیر
دربار چھوڑ آیا ہوں سجدہ کیے بغیر
یہ شہرِ احتجاج ہے خاموش مت رہو
حق بھی نہیں ملے گا تقاضا کیے بغیر
پھر ایک امتحاں سے گزرنا ہے عشق کو
روتا ہے وہ بھی آنکھ کو میلا کیے بغیر

Saturday 23 May 2015

ان آنکھوں کی مستی کے مستانے ہزاروں ہیں

ان آنکھوں کی مستی کے مستانے ہزاروں ہیں 
ان آنکھوں سے وابستہ، افسانے ہزاروں ہیں
اِک تم ہی نہیں تنہا، اُلفت میں میری رُسوا 
اس شہر میں تم جیسے دیوانے ہزاروں ہیں
اِک صرف ہمِیں مے کو، آنکھوں سے پِلاتے ہیں 
کہنے کو تو دنیا میں مئے خانے ہزاروں ہیں

دل چیز کیا ہے آپ مری جان لیجیے

دل چیز کیا ہے، آپ مِری جان لیجیے
بس ایک بار میرا کہا، مان لیجیے
اس انجمن میں آپ کو آنا ہے بار بار
دیوار  ودر کو غور سے پہچان لیجیے
مانا کہ دوستوں کو نہیں دوستی کا پاس
لیکن، یہ کیا کہ غیر کا احسان لیجیے

ہوا یہ کیا کہ خموشی بھی گنگنانے لگی

ہُوا یہ کیا کہ خموشی بھی گنگنانے لگی
گئی رُتوں کی ہر اِک بات یاد آنے لگی
زمینِ دل پہ کئی نُور کے مینارے تھے
خیال آیا کسی کا تو دُھند چھانے لگی
خبر یہ جب سے پڑھی ہے، خوشی کا حال نہ پوچھ
سیاہ رات! تجھے روشنی ستانے لگی

یہ کیا جگہ ہے دوستو یہ کون سا دیار ہے

یہ کیا جگہ ہے دوستو! یہ کون سا دیار ہے
حدِ نِگاہ تک جہاں، غبار ہی غبار ہے
یہ کس مقام پر حیات مجھ کو لے کے آ گئی
نہ بس خوشی پہ ہے جہاں نہ غم پہ اختیار ہے
تمام عمر کا حساب مانگتی ہے زندگی
یہ میرا دل کہے تو کیا، یہ خود سے شرمسار ہے

دل میں اترے گی تو پوچھے گی جنوں کتنا ہے

دل میں اترے گی تو پوچھے گی جنوں کتنا ہے
نوکِ خنجر ہی بتائے گی کہ خوں کتنا ہے
آندھیاں آئیں تو سب لوگوں کو معلوم ہوا
پرچمِ خواب زمانے میں نِگوں کتنا ہے
جمع کرتے رہے جو اپنے کو ذرہ، ذرہ
وہ یہ کیا جانیں، بِکھرنے میں سکوں کتنا ہے

جب بھی ملتی ہے مجھے اجنبی لگتی کیوں ہے

جب بھی ملتی ہے مجھے اجنبی لگتی کیوں ہے 
زندگی، روز نئے رنگ بدلتی کیوں ہے
دھوپ کے قہر کا ڈر ہے تو دیارِ شب سے
سر برہنہ کوئی پرچھائیں نکلتی کیوں ہے
مجھ کو اپنا نہ کہا اس کا گِلہ تجھ سے نہیں 
اس کا شِکوہ ہے کہ بے گانہ سمجھتی کیوں ہے

تجھ سے بچھڑے ہیں تو اب کس سے ملاتی ہے ہمیں

تجھ سے بچھڑے ہیں تو اب کس سے ملاتی ہے ہمیں
زندگی دیکھئے کیا رنگ دکھاتی ہے ہمیں
مرکزِ دیدہ و دل، تیرا تصور تھا کبھی
آج اس بات پہ کتنی ہنسی آتی ہے ہمیں
پھر کہیں خواب و حقیقت کا تصادم ہو گا
پھر کوئی منزلِ بے نام، بلاتی ہے ہمیں

دشمن دوست سبھی کہتے ہیں بدلا نہیں ہوں میں

دشمن دوست سبھی کہتے ہیں، بدلا نہیں ہوں میں
تجھ سے بچھڑ کے کیوں لگتا ہے، تنہا نہیں ہوں میں
عمرِ سفر میں کب سوچا تھا، موڑ یہ آئے گا
دریا پار کھڑا ہوں گرچہ پیاسا نہیں ہوں میں
پہلے بہت نادِم تھا، لیکن آج بہت خوش ہوں
دنیا رائے تھی اب تک جیسی، ویسا نہیں ہوں میں

شکوہ کوئی دریا کی روانی سے نہیں ہے

شِکوہ کوئی دریا کی روانی سے نہیں ہے
رِشتہ ہی مِری پیاس کا پانی سے نہیں ہے
کل یوں تھا کہ یہ قیدِ زمانی سے تھے بے زار
فرصت جنہیں اب سیرِ مکانی سے نہیں ہے
چاہا تو یقیں آئے نہ سچائی پہ اس کی
خائف کوئی گُل عہدِ خزانی سے نہیں ہے

امید سے کم چشم خریدار میں آئے

اُمید سے کم چشمِ خریدار میں آئے
ہم لوگ ذرا دیر سے بازار میں آئے
سچ خود سے بھی یہ لوگ نہیں بولنے والے
اے اہلِ جنوں! تم یہاں بے کار میں آئے
یہ آگ ہوس کی ہے جھُلس دے گی اسے بھی
سُورج سے کہو، سایۂ دیوار میں آئے

اسے گناہ کہیں یا کہیں ثواب کا کام

اسے گناہ کہیں، یا کہیں ثواب کا کام
ندی کو سونپ دیا پیاس نے سراب کا کام
ہم ایک چہرے کو ہر زاوئیے سے دیکھ سکیں
کسی طرح سے مکمل ہو نقشِ آب کا کام
ہماری آنکھیں، کہ پہلے تو خوب جاگتی ہیں
پھر اس کے بعد وہ کرتی ہے صرف خواب کا کام

زندگی جیسی توقع تھی نہیں کچھ کم ہے

زندگی جیسی توقع تھی نہیں کچھ کم ہے
ہر گھڑی ہوتا ہے احساس کہیں کچھ کم ہے
گھر کی تعمیر تصور ہی میں ہو سکتی ہے
اپنے نقشے کے مطابق یہ زمیں کچھ کم ہے
بچھڑے لوگوں سے ملاقات کبھی پھر ہو گی
دل میں اُمید تو باقی ہے، یقیں کچھ کم ہے

چاہتا کچھ ہوں مگر لب پہ دعا ہے کچھ اور

چاہتا کچھ ہوں مگر لب پہ دعا ہے کچھ اور
دل کے اطراف کی دیکھو تو فضا ہے کچھ اور
جو مکاں دار ہیں دنیا میں، انہیں کیا معلوم
گھر کی تعمیر کی حسرت کا مزا ہے کچھ اور
جسم کے ساز پہ سنتا تھا عجب سا نغمہ
روح کے تاروں کو چھیڑا تو صدا ہے کچھ اور

کٹے گا دیکھئے دن جانے کس عذاب کے ساتھ

کٹے گا دیکھیے دن جانے کس عذاب کے ساتھ
کہ آج دھوپ نہیں نکلی آفتاب کے ساتھ
تو پھر بتاؤ! سمندر صدا کو کیوں سنتے
ہماری پیاس کا رشتہ تھا جب سراب کے ساتھ
بڑی عجیب مہک ساتھ لے کے آئی ہے
نسیم! رات بسر کی کسی گلاب کے ساتھ

ایسے ہجر کے موسم اب کب آتے ہیں

ایسے ہجر کے موسم اب کب آتے ہیں
تیرے علاوہ یاد ہمیں سب آتے ہیں
جاگتی آنکھوں سے بھی دیکھو دنیا کو
خوابوں کا کیا ہے، وہ ہر شب آتے ہیں
جذب کرے کیوں ریت ہمارے اشکوں کو
تیرا دامن تر کرنے اب آتے ہیں

ہم پڑھ رہے تھے خواب کے پرزوں کو جوڑ کے

ہم پڑھ رہے تھے خواب کے پرزوں کو جوڑ کے
آندھی نے یہ طلسم بھی رکھ ڈالا توڑ کے
آغاز کیوں کیا تھا سفر ان خلاؤں کا
پچھتا رہے ہو سبز زمینوں کو چھوڑ کے
اِک بوند زہر کے لئے پھیلا رہے ہو ہاتھ
دیکھو کبھی خود اپنے بدن کو نچوڑ کے

یہ قافلے یادوں کے کہیں کھو گئے ہوتے

یہ قافلے یادوں کے کہیں کھو گئے ہوتے
اِک پَل بھی اگر بھول سے ہم سو گئے ہوتے
اے شہر! تیرا نام و نشاں بھی نہیں ہوتا
جو حادثے ہونے تھے اگر ہو گئے ہوتے
ہر بار پلٹتے ہوئے گھر کو یہی سوچا
اے کاش، کسی لمبے سفر کو گئے ہوتے

سنتا ہوں کہ وہ نہیں انکاری اس بات سے

سنتا ہوں کہ وہ نہیں انکاری اس بات سے
کوئی نسبت تھی کبھی تجھ کو میری ذات سے
تُو میرے ہمراہ تھا دروازے تک شام کے
اس کے آگے کیا ہوا پوچھا جائے رات سے
پچھلی بارش میں مجھے خواہش تھی سیلاب کی
اب کے تو بتلا مجھے کیا مانگوں برسات سے

جو برا تھا کبھی اب ہو گیا اچھا کیسے

جو برا تھا کبھی اب ہو گیا اچھا کیسے
وقت کے ساتھ میں اس تیزی سے بدلا کیسے
جن کو وحشت سے علاقہ نہیں وہ کیا جانیں
بیکراں دشت میرے حصے میں آیا کیسے
کوئی اک آدھ سبب ہوتا تو بتلا دیتا
پیاس سے ٹوٹ گیا پانی کا رشتہ کیسے

تو کہاں ہے تجھ سے اک نسبت ہے میری ذات کو

تو کہاں ہے تجھ سے اک نسبت ہے میری ذات کو
کب سے پلکوں پہ اٹھائے پھر رہا ہوں رات کو
میرے حصے کی زمیں بنجر تھی میں واقف نہ تھا
بے سبب الزام میں دیتا رہا برسات کو
کیسی بستی تھی جہاں پر کوئی بھی ایسا نہ تھا
منکشف میں جس پہ کرتا اپنے دل کی بات کو

بابل کی دعائیں لیتی جا جا تجھ کو سکھی سنسار ملے

فلمی ودائیہ گیت

بابل کی دعائیں لیتی جا، جا تجھ کو سُکھی سنسار ملے
میکے کی کبھی نہ یاد آئے، سسرال میں اتنا پیار ملے
بابل کی دعائیں لیتی جا

نازوں سے تجھے پالا میں نے، کلیوں کی طرح، پھولوں کی طرح
بچپن میں جھُلایا ہے تجھ کو بانہوں نے میری جھُولوں کی طرح
میرے باغ کی اے نازک ڈالی! تجھے ہر پَل نئی بہار ملے

ملتی ہے زندگی میں محبت کبھی کبھی

ملتی ہے زندگی میں محبت کبھی کبھی

فلمی گیت

مِلتی ہے زندگی میں محبت کبھی کبھی
ہوتی ہے دِلبروں کی عِنایت کبھی کبھی
شرما کے منہ نہ پھیر نظر کے سوال پر
لاتی ہے ایسے موڑ پر قسمت کبھی کبھی

Friday 22 May 2015

آخر کو ترا درد سے یارانہ ہوا نا

آخر کو تِرا درد سے یارانہ ہوا نا
تُو اُن کی عنایات سے بے گانہ ہوا نا
ویسے تو بہت بانٹتا پھِرتا ہوں محبت
دل کھول کے دیتا نہیں، دریا نہ ہوا نا
ملتی ہے شراب اور، شباب اور، کباب اور
جنت نہ ہوئی آپ کی، مے خانہ ہوا نا

کچھ لوگ جو جاتے ہیں پلٹتے ہی نہیں ہیں

کچھ لوگ جو جاتے ہیں پلٹتے ہی نہیں ہیں
اور ان کے بِنا دن ہیں کہ کٹتے ہی نہیں ہیں
بِکھرے ہی کچھ ایسے ہیں کہ کیا شعر کہوں میں
گیسُو تِرے لفظوں میں سِمٹتے ہی نہیں ہیں
ماتھے پہ جو آئے ہیں یہ ہاتھوں سے ہٹا لوں
پر، بال جو شیشے میں ہیں ہٹتے ہی نہیں ہیں

وہ ضبط جو اس درد کے مارے میں نہیں تھا

وہ ضبط جو اس درد کے مارے میں نہیں تھا
وہ آپ کے ابرو کے اشارے میں نہیں تھا
ہر لفظ میں اس کے، مِری باتوں کی جھلک تھی
اِک لفظ بھی اس کا مِرے بارے میں نہیں تھا
میں نے تِری دنیا کی ہرایک چیز خریدی
پر پیار کا سودا مِرے وارے میں نہیں تھا

آئینہ خانے کو مشکل میں تو ڈالا ہی نہیں

آئینہ خانے کو مشکل میں تو ڈالا ہی نہیں
مسکراہٹ کو ابھی اس نے اچھالا ہی نہیں
کون کہتا ہے کہ تُو چھوڑ گیا ہے مجھ کو
سچ تو یہ ہے کہ تجھے دل سے نکالا ہی نہیں
ہم اسی بات پہ درویش بنے پھرتے ہیں
دولتِ بابِ سخن پر کوئی تالہ ہی نہیں

Thursday 21 May 2015

سوچنا روح میں کانٹے سے بچھائے رکھنا

سوچنا رُوح میں کانٹے سے بچھائے رکھنا
یہ بھی کیا سانس کی تلوار بنائے رکھنا
اب تو یہ رسم ہے خُوشبو کے قصیدے پڑھنا
پھُول گُلدان میں کاغذ کے سجائے رکھنا
تیرگی ٹُوٹ پڑے بھی تو بُرا مت کہیو
ہو سکے گر تو چراغوں کو جلائے رکھنا

اشارتوں کی وہ شرحیں وہ تجزیہ بھی گیا

اشارتوں کی وہ شرحیں وہ تجزیہ بھی گیا
جو گردِ متن بنا تھا، وہ حاشیہ بھی گیا
وہ دلربا سے جو سپنے تھے لے اڑیں نیندیں
دھنک نگر سے وہ دھندلا سا رابطہ بھی گیا
ہمیں بھی بننے سنورنے کا  دھیان رہتا تھا
وہ ایک شخص کہ تھا ایک آئینہ بھی، گیا

پڑھنے بھی نہ پائے تھے کہ وہ مٹ بھی گئی تھی

پڑھنے بھی نہ پائے تھے کہ وہ مِٹ بھی گئی تھی
بجلی نے گھٹاؤں پہ جو تحریر لکھی تھی
اس شہر کے دیوار و در آسیب زدہ تھے
گلیوں میں بھی تا حدِ نظر برف جمی تھی
چپ سادھ کے بیٹھے تھے سبھی لوگ وہاں پر
پردے میں جو تصویر تھی، کچھ بول رہی تھی

کیوں کسی اور کو دکھ درد سناؤں اپنے

کیوں کِسی اور کو دکھ درد سناؤں اپنے
اپنی آنکھوں سے بھی میں زخم چھپاؤں اپنے
میں تو قائم ہوں تیرے غم کی بدولت، ورنہ
یوں بِکھر جاؤں، کہ خُود ہاتھ نہ آؤں اپنے
شعر لوگوں کے بہت یاد ہیں اوروں کے لیے
تُو مِلے تو میں تجھے شعر سناؤں اپنے

بوسنیا: آج تمہاری خونخواری پر حیرت ہے حیوانوں کو

بوسنیا

آج تمہاری خُونخواری پر حیرت ہے حیوانوں کو
تم تو کل تہذیب سِکھانے نکلے تھے انسانوں کو
یہ بھی کیسا شوق ہے تم کو شہروں کی بربادی کا
جگہ جگہ آباد کیا ہے تم نے قبرستانوں کو
ہنستے بستے قریے تم نے شعلوں میں کفنائے ہیں
ریت میں دفن کیا ہے تم نے کتنے نَخلستانوں کو

غبار جاں نکلنا جانتا ہے

غبارِ جاں نکلنا جانتا ہے
دھواں روزن کا رَستہ جانتا ہے
تم اس کی رہنمائی کیا کرو گے
کِدھر جانا ہے، دریا جانتا ہے
بہت حیراں ہوا میں اس سے مل کر
مجھے اِک شخص کتنا جانتا ہے

مری آبائی تلواروں کے دستے بیچ ڈالے ہیں

مِری آبائی تلواروں کے دَستے بیچ ڈالے ہیں
بہت مہنگے تھے یہ ہِیرے جو سَستے بیچ ڈالے ہیں
وہ جن پہ چل کے منزل پر پہنچنا تھا غریبوں کو
امیرِ شہر نے وہ سارے رَستے بیچ ڈالے ہیں
مِرے دریاؤں کا پانی اٹھا ڈالا ہے ٹھیکے پر
وہ بادل تھے جو کھیتوں پر برستے، بیچ ڈالے ہیں

دنیا بھی عجب قافلہ تشنہ لباں ہے

دنیا بھی عجب قافلۂ تشنہ لباں ہے
ہر شخص سرابوں کے تعاقب میں رواں ہے
تنہا تِری محفل میں نہیں ہوں کہ مِرے ساتھ
اِک لذّتِ پابندئ اظہار و بیاں ہے
جو دل کے سمندر میں ابھرتا ہے، یقیں ہے
جو ذہن کے ساحل سے گزرتا ہے، گماں ہے

میں جرم خموشی کی صفائی نہیں دیتا

میں جرمِ خموشی کی صفائی نہیں دیتا
ظالم اسے کہیے جو دھائی نہیں دیتا
کہتا ہے کہ آواز یہیں چھوڑ کے جاؤ
میں ورنہ تمہیں اِذنِ رِہائی نہیں دیتا
چَرکے بھی لگے جاتے ہیں دیوارِ بدن پر
اور دستِ سِتمگر بھی دِکھائی نہیں دیتا

کب ضیاء بار ترا چہرہ زیبا ہو گا

کب ضیاء بار ترا چہرۂ زیبا ہو گا
کیا جب آنکھیں نہ رہیں گی تو اجالا ہو گا
مشغلہ اس نے عجب سونپ دیا ہے یارو
عمر بھر سوچتے رہیے کہ وہ کیسا ہو گا
جانے کس رنگ سے روٹھے گی طبعیت اس کی
جانے کس ڈھنگ سے اب اس کو منانا ہو گا

Monday 18 May 2015

ہر شخص وہاں بکنے کو تیار لگے تھا

ہر شخص وہاں بِکنے کو تیار لگے تھا
وہ شہر سے بڑھ کر کوئی بازار لگے تھا 
ہر شام دَبے پاؤں نِکلتا تھا کہیں سے
وہ رنج کوئی سایۂ دیوار لگے تھا
کیا طُرفہ طلسمات تھا آئینۂ دل بھی
اِس پار لگا تھا، مگر اُس پار لگے تھا

اس پیڑ کا عجیب ہی ناتا تھا دھوپ سے

اس پیڑ کا عجیب ہی ناتا تھا دھوپ سے 
خود دھوپ میں تھا سب کو بچاتا تھا دھوپ سے 
ابرِ رواں سے آبِ رواں پر وہ نقش گر 
منظر طرح طرح کے بناتا تھا دھوپ سے 
وہ رنج تھا کہ شام اترنے کے ساتھ ساتھ
سایہ سا کوئی پھیلتا جاتا تھا دھوپ سے

کبھی سراب کرے گا کبھی غبار کرے گا

کبھی سراب کرے گا، کبھی غبار کرے گا 
یہ دشتِ جاں ہے میاں! یہ کہاں قرار کرے گا
ابھی یہ بِیج کے مانند پھُوٹتا ہوا دُکھ ہے 
بہت دنوں میں کوئی شکل اِختیار کرے گا 
یہ خود پسند سا غم ہے سو یہ اُمید بھی کم ہے
کہ اپنے بھید کبھی تُجھ پہ آشکار کرے گا

ہر آدمی کا خوشی ہی اگر مقدر ہو

ہر آدمی کا خوشی ہی اگر مقدر ہو
تو شہرِ غم زدگاں کا عجیب منظر ہو
خدا گواہ کہ خوشیاں بہت مِلیں، لیکن
میں کیا کروں جو اداسی ہی دل کے اندر ہو
سفر سے پہلے پرکھ لینا ہمسفر کا خلوص
پھر آگے اپنا مقدر ہے، جو مقدر ہو

کیا تھا ترک محبت کا تجربہ میں نے

کِیا تھا ترکِ محبت کا تجربہ میں نے
اور اب یہ سوچ رہا ہوں یہ کیا کِیا میں نے
اب اپنے آپ کو آواز دیتا پھِرتا ہوں
کہ جیسے تجھ کو نہیں خود کو کھو دیا میں نے
یہ دُکھ بھی کم تو نہیں ہے کہ نِیم سوز چراغ
جلا نہیں تھا کہ اس کو بُجھا دیا میں نے

اپنے آپ میں گم سم شامل خاک اڑانے میں

بنام عزم بہزاد

اپنے آپ میں گُم سُم، شامل خاک اُڑانے میں
فرق ہی کتنا رہ جاتا ہے دشت میں اور دیوانے میں
میری خاموشی ہی شاید میرے بیان سے بہتر تھی
میں نے اپنا آپ گنوایا، اپنا آپ بتانے  میں
جیسے جیسے منظر تم کو مجھ میں دکھائی دیتے  ہیں
لوگو! میری عمر لگی ہے ایسے رنگ بنانے میں

دل میں رکھے ہوئے آنکھوں میں بسائے ہوئے شخص

دل میں رکھے ہوئے، آنکھوں میں بسائے ہوئے شخص
پاس سے دیکھ مجھے، دُور سے آئے ہوئے شخص
جانتا ہوں، یہ ملاقات ذرا دیر کی ہے
تپتی راہوں میں خُنک چھاؤں کھِلائے ہوئے شخص
یہ تو دنیا بھی نہیں ہے کہ کنارہ کر لے
تُو کہاں جائے گا اے دل کے ستائے ہوئے شخص

عشق تو خیر کر لیا کروں گا

عشق تو خیر کر لیا کروں گا
پر تِرے ہِجر کا میں کیا کروں گا
تُو نہیں ہے تو کس طرح گزرے
تُو مِلے گا تو مشورہ کروں گا
تیرے چہرے پہ اپنی آنکھوں سے
میں بہت دیر تبصرہ کروں گا

Sunday 17 May 2015

دل کی دھڑکن کہ جاں سے آتی ہے

دل کی دھڑکن کہ جاں سے آتی ہے
ان کی خُوشبو، کہاں سے آتی ہے
حدِ اوہام سے گُزر کے کھُلا
خوش یقینی، گُماں سے آتی ہے
جرأتِ بندگئ ربِ جلیل
بُت شِکن کی اذاں سے آتی ہے

جو گرا ہے پستیوں میں تو غبار تک نہ اٹھا

جو گِرا ہے پستیوں میں، تو غُبار تک نہ اُٹھا
وہ سیاہ بخت جس سے غمِ یار تک نہ اُٹھا
کوئی موجۂ تبسّم، لبِ یار تک نہ اُٹھا
وہ نزاکتوں کا عالم، کہ یہ بار تک نہ اُٹھا
درِ یار ہے وہ منزل، کہ ہے زندگی کا حاصل
وہ قدم ہی کیا اُٹھا جو، درِ یار تک نہ اُٹھا

Saturday 16 May 2015

عمر بھر کاوش اظہار نے سونے نہ دیا

عمر بھر کاوشِ اظہار نے سونے نہ دیا
حرفِ ناگفتہ کے آزار نے سونے نہ دیا
دشت کی وسعتِ بے قید میں کیا نیند آتی
گھر کی قید، در و دیوار نے سونے نہ دیا
تھک کے سو رہنے کو رَستے میں ٹھکانے تھے بہت
ہوسِ سایۂ دیوار نے سونے نہ دیا

وہ مرے دل کی روشنی وہ مرے داغ لے گئی

وہ مِرے دل کی روشنی، وہ میرے داغ لے گئی
ایسی چلی ہوائے شام، سارے چراغ لے گئی
شاخ و گُل و ثمر کی بات کون کرے، کہ ایک رات
بادِ شمال آئی تھی، باغ کا باغ لے گئی
وقت کی موجِ تُند رو آئی تھی، سُوئے مے کدہ
میری شراب پھینک کر میرے ایاغ لے گئی

عشق میں جس کے یہ احوال بنا رکھا ہے

عشق میں جس کے یہ احوال بنا رکھا ہے
اب وہی کہتا ہے اِس وضع میں کیا رکھا ہے
لے چلے ہو مجھے اس بزم میں یارو! لیکن
کچھ مِرا حال بھی پہلے سے سُنا رکھا ہے
حالِ دل کون سنائے اُسے، فُرصت کس کو
سب کو اُس آنکھ نے باتوں میں لگا رکھا ہے

دیکھنے کے لیے اک شرط ہے منظر ہونا

دیکھنے کے لیے اِک شرط ہے منظر ہونا
دوسری شرط ہے پھر آنکھ کا پتھر ہونا
وہیں دیوار اٹھا دی مِرے معماروں نے
گھر کے نقشے میں مقرر تھا جہاں در ہونا
مجھ کو دیکھا تو فلک زاد رفیقوں نے کہا
اس ستارے کا مقدر ہے زمیں پر ہونا

دلوں میں درد بھرتا آنکھ میں گوہر بناتا ہوں

دلوں میں درد بھرتا، آنکھ میں گوہر بناتا ہوں
جنہیں مائیں پہنتی ہیں میں وہ زیور بناتا ہوں
غنِیمِ وقت کے حملے کا مجھ کو خوف رہتا ہے
میں کاغذ کے سپاہی کاٹ کر لشکر بناتا ہوں
پرانی کشتیاں ہیں میرے ملاحوں کی قسمت میں
میں ان کے بادباں سِیتا ہوں اور لنگر بناتا ہوں

جانے کسی نے کیا کہا تیز ہوا کے شور میں

جانے کسی نے کیا کہا تیز ہوا کے شور میں
مجھ سے سُنا نہیں گیا تیز ہوا کے شور میں
 میں بھی تجھے نہ سُن سکا تُو بھی مجھے نہ سُن سکا
تجھ سے ہُوا مکالمہ، تیز ہوا کے شور میں
کشتیوں والے بے خبر بڑھتے رہے بھنور کی سمت
اور میں چیختا رہا تیز ہوا کے شور میں

ترک ان سے رسم و راہ و ملاقات ہو گئی

تَرک ان سے رسم و راہ و ملاقات ہو گئی
یوں مِل گئے کہیں تو کوئی بات ہو گئی
دل تھا اُداس عالمِ غُربت کی شام تھی
کیا وقت تھا کہ تم سے ملاقات ہو گئی
یہ دشتِ ہول خیز  یہ منزل کی دُھن یہ شوق
یہ بھی خبر نہیں کہ کہاں رات ہو گئی

Thursday 14 May 2015

ستم ہو جائے تمہید کرم ایسا بھی ہوتا ہے

ستم ہو جائے تمہیدِ کرم ایسا بھی ہوتا ہے
محبت میں بتا اے ضبطِ غم! ایسا بھی ہوتا ہے
بھُلا دیتی ہیں سب رنج و الم حیرانیاں میری
تِری تمکِین بے حد کی قسم ایسا بھی ہوتا ہے
جفائے یار کے شکوے نہ کر اے رنجِ ناکامی
امید و یاس دونوں ہوں بہم ایسا بھی ہوتا ہے

خو سمجھ میں نہیں آتی ترے دیوانوں کی

خُو سمجھ میں نہیں آتی تِرے دیوانوں کی
دامنوں کی خبر ہے، نہ گریبانوں کی
جلوۂ ساغر و مِینا ہے جو ہمرنگِ بہار
رونقیں طُرفہ ترقی پہ ہیں مے خانوں کی
ہر طرف بے خودی و بے خبری کی ہے نمود
قابلِ دِید ہے دنیا تیرے حیرانوں کی

سب سے چھپتے ہیں چھپیں مجھ سے تو پردا نہ کریں

سب سے چھپتے ہیں چھپیں، مجھ سے تو پردا نہ کریں
سیرِ گلشن وہ کریں شوق سے، تنہا نہ کریں
اب تو آتا ہے یہی جی میں کہ اے محوِ جفا
کچھ بھی ہو جائے مگر تیری تمنّا نہ کریں
میں ہوں مجبور تو مجبور کی پُرسِش ہے ضرور
وہ مسیحا ہیں تو بیمار کو اچھا نہ کریں

گھر کے آخر آج برسی ہے گھٹا برسات کی

گھِر کے آخر آج برسی ہے گھٹا برسات کی
مے کدوں میں کب سے ہوتی تھی دعا برسات کی
موجبِ سوز و سرور و باعثِ عیش و نشاط
تازگی بخش دل و جاں ہے ہوا برسات کی
شامِ سَرما دلرُبا تھا، صبحِ گرماں خوش نما
دلرُبا تر، خوشنما تر، ہے فضا برسات کی

پیہم دیا پیالہ مے برملا دیا

پیہم دیا پیالۂ مے برملا دیا
ساقی نے التفات کا دریا بہا دیا
اس حِیلہ جُو نے وصل کی شب ہم سے رُوٹھ کر
نیرنگِ روزگار کا عالم دکھا دیا
اللہ رے، بہار کی رنگ آفرینیاں
صحنِ چمن کو تختۂ جنت بنا دیا

بام پر آنے لگے وہ سامنا ہونے لگا

بام پر آنے لگے وہ، سامنا ہونے لگا
اب تو اِظہارِ محبت برملا ہونے لگا
کیا کہا میں نے جو ناحق تم خفا ہونے لگے
کچھ سنا بھی یا کہ یونہی فیصلہ ہونے لگا
اب غریبوں پر بھی ساقی کی نظر پڑنے لگی
بادۂ پس خوردہ ہم کو بھی عطا ہونے لگا

آنکھوں کو انتظار سے گرویدہ کر چلے

آنکھوں کو اِنتظار سے گروِیدہ کر چلے
تم یہ تو خوب کارِ پسندِیدہ کر چلے
مایوس دل کو پھِر سے وہ شورِیدہ کر چلے
بیدار سارے فتنہ و خوابِیدہ کر چلے
اظہارِ التفات کے پردے میں اور بھی
وہ عقدہ ہائے شوق کو پیچِیدہ کر چلے

نظر پھر نہ کی اس پہ دل جس کا چھینا

نظر پھر نہ کی اس پہ دل جس کا چھِینا
محبت کا یہ بھی ہے کوئی قرِینا
وہ کیا قدر جانیں دلِ عاشقاں کی
نہ عالم، نہ فاضل، نہ دانا، نہ بِینا
وہیں سے یہ آنسو رواں ہیں، جو دل میں
تمنا کا پوشیدہ ہے اِک خزِینا

بھلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں

بھُلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں
الٰہی! ترکِ اُلفت پر وہ کیونکر یاد آتے ہیں
نہ چھیڑ اے ہمنشیں! کیفیتِ صہبا کے افسانے
شرابِ بے خودی کے مجھ کو ساغر یاد آتے ہیں
رہا کرتے ہیں قیدِ ہوش میں اے وائے ناکامی
وہ دشتِ خود فراموشی کے چکر یاد آتے ہیں

Tuesday 12 May 2015

غم دل کسی سے چھپانا پڑے گا

غمِ دل کسی سے چھُپانا پڑے گا
گھڑی دو گھڑی مُسکرانا پرے گا
یہ آلامِ ہستی، یہ دَورِ زمانہ
تو کیا اب تمہیں بھُول جانا پڑے گا
بہت بچ کے نکلے مگر کیا خبر تھی
ادھر بھی تِرا آستانہ پڑے گا

باقی رہی نہ خاک بھی میری زمانے میں

باقی رہی نہ خاک بھی میری زمانے میں
اور بَرق ڈھونڈتی ہے مجھے آشیانے میں
اب کس سے دوستی کی تمنّا کریں گے ہم
اِک تم جو مِل گئے ہو سارے زمانے میں
اے حُسن! میرے شوق کو الزام تو نہ دے
تیرا تو نام تک نہیں میرے فسانے میں

وعدہ: میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا فلمی گیت

میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا

وعدہ

اس سے پہلے کہ تیری چشمِ کرم
معذرت کی نگاہ بن جائے
اس سے پہلے کہ تیرے بام کا حُسن
رفعتِ مِہر و ماہ بن جائے

جب ترے شہر سے گزرتا ہوں

فلمی گیت

جب تِرے شہر سے گزرتا ہوں
تیری رُسوائیوں سے ڈرتا ہوں

کس طرح روکتا ہوں اشک اپنے
کس قدر دل پہ جبر کرتا ہوں
آج بھی کار زارِ ہستی میں
جب تِرے شہر سے گزرتا ہوں
تیری رُسوائیوں سے ڈرتا ہوں

اب بتاؤ جائے گی زندگی کہاں یارو

اب بتاؤ! جائے گی زندگی کہاں یارو
پھر ہیں برق کی نظریں سُوئے آشیاں یارو
اب نہ کوئی منزل ہے اور نہ رہگزر کوئی
جانے قافلہ بھٹکے اب کہاں کہاں یارو
پھول ہیں کہ لاشیں ہیں، باغ ہے کہ مقتل ہے
شاخ شاخ ہوتا ہے دار کا گُماں یارو

منزل کے خواب دیکھتے ہیں پاؤں کاٹ کے

منزل کے خواب دیکھتے ہیں پاؤں کاٹ کے
کیا سادہ دل یہ لوگ ہیں گھر کے نہ گھاٹ کے
اب اپنے آنسوؤں میں ہیں ڈوبے ہوئے تمام
آئے تھے اپنے خون کا دریا جو پاٹ کے
شہرِ وفا میں حقِ نمک یوں ادا ہوا
محفل میں ہیں لگے ہوئے پیوند ٹاٹ کے

اس بار وہ ملا تو عجیب اس کا رنگ تھا

اِس بار وہ مِلا تو عجیب اُس کا رنگ تھا
الفاظ میں ترنگ، نہ لہجہ دَبنگ تھا
اِک سوچ تھی کہ بِکھری ہوئی خال و خد میں تھی
اِک درد تھا کہ جس کا شاہد انگ انگ تھا
اِک آگ تھی کہ راکھ میں پوشیدہ تھی کہیں
اِک جِسم تھا کہ رُوح سے مصروفِ جنگ تھا

میں کون ہوں کیا ہوں میری تحریر کہے گی

میں کون ہوں کیا ہوں میری تحریر کہے گی
خاموش ہوا تو میری تصویر کہے گی
کیوں سرخ ہیں نقشِ کفِ پا، راہِ طلب میں
کوئی نہ کہے، پاؤں کی زنجیر کہے گی
ہم کو تو سدا نیند میں چلنے کا مرض ہے
پہنچیں گے کہاں، خواب کی تعبیر کہے گی

یہ آرزو ہی رہی کوئی آرزو کرتے

یہ آرزُو ہی رہی، کوئی آرزُو کرتے
خُود اپنی آگ میں جلتے، جِگر لہُو کرتے
تیرے جمال کا پَرتَو نگاہ میں ہوتا
کبھی صبا سے کبھی گُل سے گُفتگُو کرتے
تیرے خیال میں گُم ہو کے اِک غزل کہتے
اور اِس غزل کو نہ رُسوا کُو بہ کُو کرتے

یہ آرزو ہے کہ جب بھی گلے لگاؤں اسے

یہ آرزُو ہے کہ جب بھی گلے لگاؤں اُسے
حصارِ زِیست سے باہر نکال لاؤں اسے
وہ جل رہا تھا کڑی دُھوپ کی تمازت میں
مِلا جو اب تو اوڑھا دوں گا اپنی چھاؤں اسے
یہ عشق بھی ہے عجب امتحانِ عہدِ وفا
وہ آزمائے مجھے اور میں آزماؤں اسے

ان کہی: تجھ کو معلوم نہیں تجھ کو بھلا کیا معلوم

ان کہی

تجھ کو معلوم نہیں، تجھ کو بھلا کیا معلوم
تیرے چہرے کے وہ سادہ سے اچُھوتے سے نقُوش
کیا تخیّل کو مِرے رنگ عطا کرتے ہیں
تیری زُلفیں، تِری آنکھیں، تِرے عارض، تِرے ہونٹ
کیسی انجانی سی معصُوم خطا کرتے ہیں

Monday 11 May 2015

اٹھا لیتا ہے اپنی ایڑیاں جب ساتھ چلتا ہے

اٹھا لیتا ہے اپنی ایڑیاں جب ساتھ چلتا ہے
وہ بونا کس قدر میرے قد و قامت سے جلتا ہے
کبھی اپنے وسائل سے نہ بڑھ کر خواہشیں پالوں
وہ پودا ٹوٹ جاتا ہے جو لا محدود پھلتا ہے
مسافت میں نہیں حاجت اسے چھتنار پیڑوں کی
بیاباں کی دہکتی گود میں جو شخص پلتا ہے

دن کو میں لوہے کی ایک مل میں مزدوری کرتا ہوں

دن کو میں لوہے کی ایک مِل میں مزدوری کرتا ہوں
شام کی اپنی نامکمل غزلیں پوری کرتا ہوں
میری گمنامی کا مؤجب ان لوگوں کی شہرت ہے
اپنے تن من دھن سے جن کی میں مشہوری کرتا ہوں
تم اپنے ان زہر بھرے پیالوں پر جتنے نازاں ہو
میں بھی رسمِ سقراط پر اتنی ہی مغروری کرتا ہوں

کتنا بعد ہے میرے فن اور پیشے کے مابین

کتنا بُعد ہے میرے فن اور پیشے کے مابین
باہر دانش ور ہوں لیکن مل میں آئل مین
کانوں میں ہے شور کلوں کا ذہن میں گونجیں شعر
پاکٹ میں کاغذ اور پینسل ہاتھ میں آئل کین
جتنا بڑھیا مال بناؤں، لے جائے زردار
اپنا سینہ گھٹیا سگریٹ سے پھونکوں دن رین

جب تک کہ اندھیرے ہیں اجالوں پہ مسلط

قطعہ

جب تک کہ اندھیرے ہیں اُجالوں پہ مسلّط
تب تک مِرا موضوعِ سخن جنگ رہے گا
جب تک کہ ہے مزدور کے اشکوں کا لہُو رنگ
تب تک مِرا خامہ بھی لہُو رنگ رہے گا

تنویر سپرا

محسوس کرو مجھ کو مرا جسم نہ ڈھونڈو


محسوس کرو مجھ کو، مِرا جسم نہ ڈھونڈو 
میں فصلِ بہاراں کی جنوں خیز ہوا ہوں 
منصف ہو تو پھر مجھ کو جہنم میں نہ جھونکو 
میں جسم کے دوزخ میں بہت دیر جلا ہوں 

تنویر سپرا

بے پر کی کوئی بات نہیں چاہیے مجھ کو

بے پر کی کوئی بات نہیں چاہیے مجھ کو
تقریر مساوات نہیں چاہیے مجھ کو
یہ لفظ ہیں، لفظوں سے کہیں بھوک مٹی ہے
منشور کی سوغات نہیں چاہیے مجھ کو
مخلص ہو تو تقسیم کرو زر کو ابھی سے
وعدوں کی سِیہ رات نہیں چاہیے مجھ کو

میں مصلحت کی تیغ سے کس طرح کٹ گیا


میں مصلحت کی تیغ سے کس طرح کٹ گیا
میرا وجود لاکھ وجودوں میں بٹ گیا
مغلوب ہو کے جب مِرے قدموں میں وہ گِرا
میرا ضمیر اس کی حفاظت پہ ڈٹ گیا
تنویرؔ آج اپنے ہی اندر کے حَبس سے
کوہِ سکوت ایک دھماکے سے پھٹ گیا

تنویر سپرا

آج ساقی شراب رہنے دو

آج ساقی! شراب رہنے دو
تشنگی کے عذاب رہنے دو
پونچھ ڈالو نہ آنکھ سے کاجل
کچھ تو خنجر پہ آب رہنے دو
تم سنوارو نہ اپنی زُلفوں کو
میری حالت خراب رہنے دو

ہر ایک زخم کا چہرہ گلاب جیسا ہے

ہر ایک زخم کا چہرہ گلاب جیسا ہے
مگر یہ جاگتا منظر بھی خواب جیسا ہے
یہ تلخ تلخ سا لہجہ، یہ تیز تیز سی بات
مزاجِ یار کا عالم شراب جیسا ہے
مِرا سخن بھی چمن در چمن شفق کی پھوار
تِرا بدن بھی مہکتے گلاب جیسا ہے

نہ شورش غم دوراں نہ خودسری اپنی

نہ شورشِ غمِ دوراں نہ خودسری اپنی
بہت دنوں سے ہے گُم صُم سُخنوری اپنی
سپرد آئینہ کرتا نہ تھا وہ عکس اپنا
اسے عزیز تھی کس درجہ دلبری اپنی
یہ دوپہر تو ڈھلے، تجھ کو راکھ ہونا ہے
جتا نہ خاک نشینوں پہ برتری اپنی

میں نے اس طور سے چاہا تجھے اکثر جاناں

میں نے اس طور سے چاہا تجھے 

میں نے اس طور سے چاہا تجھے اکثر جاناں
جیسے مہتاب کو بے انت سمندر چاہے
جیسے سورج کی کرن سِیپ کے دل میں اترے
جیسے خوشبو کو ہِوا رنگ سے ہٹ کر چاہے
جیسے پتھر کے کلیجے سے کرن پھوٹتی ہے
جیسے غُنچے کھِلے موسم سے حنا مانگتے ہیں

وفا میں اب یہ ہنر اختیار کرنا ہے

وفا میں اب یہ ہنر اختیار کرنا ہے
وہ سچ کہے نہ کہے اعتبار کرنا ہے
یہ تجھ کو جاگتے رہنے کا شوق کب سے ہُوا
مجھے تو خیر تیرا انتظار کرنا ہے
ہوا کی زد میں جلانے ہیں آنسوؤں کے چراغ
کبھی یہ جشن، سرِ رہگزار کرنا ہے

زندگی ساقی بہت محفوظ میخانے میں ہے

زندگی، ساقی! بہت محفوظ مے خانے میں ہے
کچھ تِری آنکھوں میں ہے، کچھ میرے پیمانےمیں ہے
پی بھی لے اے پیر صد سالہ! ذرا سی پی بھی لے
مے نہیں زاہد، جوانی میرے پیمانے میں ہے
کون سی جنت کا واعظ! کر رہا ہے ذکر تُو؟
ایسی اِک جنت تو ہم رِندوں کے مے خانے میں ہے

آنکھوں کے چراغوں میں اجالے نہ رہیں گے

آنکھوں کے چراغوں میں اجالے نہ رہیں گے
آ جاؤ، کہ پھر دیکھنے والے نہ رہیں گے
جا شوق سے، لیکن پلٹ آنے کے لیے جا
ہم دیر تک اپنے کو سنبھالے نہ رہیں گے
اے ذوقِ سفر! خیر ہو نزدیک ہے منزل
سب کہتے ہیں اب پاؤں میں چھالے نہ رہیں گے

اکیلے ہیں وہ اور جھنجلا رہے ہیں

اکیلے ہیں وہ اور جھنجلا رہے ہیں
مِری یاد سے جنگ فرما رہے ہیں
الٰہی! مِرے دوست ہوں خیریت سے
یہ کیوں گھر میں پتھر نہیں آ رہے ہیں
یہ کیسی ہوائے ترقی چلی ہے
دِیے تو دِیے، دل بجھے جا رہے ہیں

Sunday 10 May 2015

تشنگی اپنی بجھانے کے لیے جب گئے ہیں

تشنگی اپنی بجھانے کے لیے جب گئے ہیں
دَشت بے چارے سمندر کے تَلے دَب گئے ہیں
کوچ کرنے کی گھڑی ہے، مگر اے ہمسفرو
ہم ادھر جا نہیں سکتے جدھر سب گئے ہیں
غیر شائستۂ آدابِ 💗محبت💗 نہ سہی
ہم تِرے ہِجر کے آزار میں مر کب گئے ہیں

میں تو سایہ ہوں گھٹاؤں سے اترنے والا

میں تو سایہ ہوں گھٹاؤں سے اترنے والا
ہے کوئی پیاس کے صحرا سے گزرنے والا
تُو سمجھتا ہے مجھے حرفِ مکرّر، لیکن
میں صحیفہ ہوں تِرے دل پہ اترنے والا
تُو مجھے اپنی ہی آواز کا پابند نہ کر
میں تو نغمہ ہوں فضاؤں میں بِکھرنے والا

زہر چشم ساقی میں کچھ عجیب مستی ہے

زہرِ چشمِ ساقی میں کچھ عجیب مستی ہے
غرق کُفر و اِیماں ہیں، دَورِ مے پرستی ہے
شمع ہے سرِ محفل، کچھ کہا نہیں جاتا
شعلۂ زباں لے کر، بات کو ترستی ہے
زُلفِ یار کی زَد میں دَیر بھی ہے کعبہ بھی
یہ گھٹا جب اٹھتی ہے، دُور تک برستی ہے

وہ برق ناز گریزاں نہیں تو کچھ بھی نہیں

وہ برقِ ناز گریزاں نہیں تو کچھ بھی نہیں
مگر شریکِ رگِ جاں نہیں تو کچھ بھی نہیں
ہزار، دل ہے تِرا مشرقِ مہ و خورشید
غبارِ منزلِ جاناں نہیں تو کچھ بھی نہیں
سکونِ دل تو کہاں ہے، مگر یہ خوابِ سکوں
نثارِ زُلفِ پریشاں نہیں تو کچھ بھی نہیں

عشق بتاں کا لے کے سہارا کبھی کبھی

عشقِ بُتاں کا لے کے سہارا کبھی کبھی
اپنے خدا کو ہم نے پکارا کبھی کبھی
آسودۂ خاطر ہی نہیں مطمحِ وفا
غم بھی کِیا ہے ہم نے گوارہ کبھی کبھی
اِس اِنتہائے ترکِ محبت کے باوجود
ہم نے لِیا ہے نام تمہارا کبھی کبھی

سب دیکھنے والے انہیں غش کھائے ہوئے ہیں

سب دیکھنے والے انہیں غش کھائے ہوئے ہیں
اس پر بھی تعجب ہے، وہ شرمائے ہوئے ہیں
اے جان جہاں! ہم کو زمانے سے غرض کیا
جب کھو کے زمانے کو تجھے پائے ہوئے ہیں
حیران ہوں، کیوں مجھ کو دکھائی نہیں دیتے
سنتا ہوں مِری بزم وہ آئے ہوئے ہیں

جب پیار نہیں تھا تو بھلا کیوں نہیں دیتے

جب پیار نہیں تھا تو بھُلا کیوں نہیں دیتے
خط کس لیے رکھے ہیں، جلا کیوں نہیں دیتے
کس واسطے لِکھا ہے ہتھیلی پہ میرا نام
میں حرفِ غلط ہوں تو مِٹا کیوں نہیں دیتے
لِلّہ شب و روز کی الجھن سے تو نکلوں
تم میرے نہیں ہو تو بتا کیوں نہیں دیتے

احسان ترا ہو گا مجھ پر دل چاہتا ہے وہ کہنے دو

فلمی گیت

احسان تِرا ہو گا مجھ پر
دل چاہتا ہے وہ کہنے دو
مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے
مجھے پلکوں کی چھاؤں میں رہنے دو
احسان تِرا ہو گا مجھ پر

یہ کون آ گئی دلربا مہکی مہکی

فلمی گیت

یہ کون آ گئی، دِلرُبا مہکی مہکی
فضا مہکی مہکی، ہوا مہکی مہکی
وہ آنکھوں میں کاجل، وہ بالوں میں گَجرا
ہتھیلی پہ اس کی حِنا مہکی مہکی
خدا جانے کس کس کی یہ جان لے گی
وہ قاتل ادا، وہ صبا مہکی مہکی

شعلہ ہی سہی آگ لگانے کے لئے آ

شعلہ ہی سہی، آگ لگانے کے لئے آ
پھر طُور کے منظر کو دِکھانے کے لئے آ
یہ کِس نے کہا ہے، میری تقدیر بنا دے
آ، اپنے ہی ہاتھوں سے مِٹانے کے لئے آ
اے دوست! مجھے گردشِ حالات نے گھیرا
تو زُلف کی کَملی میں چھُپانے کے لئے آ

وہ اپنے چہرے میں سو آفتاب رکھتے ہیں

وہ اپنے چہرے میں سو آفتاب رکھتے ہیں
اسی لئے تو وہ رُخ پہ نقاب رکھتے ہیں
وہ پاس بیٹھے تو آتی ہے دِلرُبا خُوشبو
وہ اپنے ہونٹوں پہ کھِلتے گُلاب رکھتے ہیں
ہر ایک ورق میں تم ہی تم ہو جانِ محبوب
ہم اپنے دل کی کچھ ایسی کتاب رکھتے ہیں

Saturday 9 May 2015

رات کچھ یار طرحدار بہت یاد آئے

رات کچھ یارِ طرحدار بہت یاد آئے
وہ گلی کوچے، وہ بازار بہت یاد آئے
جن کے ہونے کی تسلی سے خوشی ہوتی تھی
درد چمکا، تو وہ غمخوار بہت یاد آئے
شامِ فُرقت میں چمکتی ہوئی صبحوں کی طرح
اپنے گھر کے در و دیوار بہت یاد آئے

مجھے سارے رنج قبول ہیں اسی ایک شخص کے پیار میں

مجھے سارے رنج قبول ہیں اسی ایک شخص کے پیار میں
مِری زیست کے کسی موڑ پر جو مجھے مِلا تھا بہار میں
وہی اِک امید ہے آخری اسی ایک شمع سے روشنی
کوئی اور اس کے سوا نہیں، میری خواہشوں کے دیار میں
وہ یہ جانتے تھے کہ آسمانوں، کے فیصلے ہیں کچھ اور ہیں
سو ستارے دیکھ کے ہنس پڑے مجھے تیری بانہوں کے ہار میں

تمام عمر تڑپتے رہیں کسی کے لیے

تمام عمر تڑپتے رہیں کسی کے لیے
اور اپنی موت بھی آئے تو بس اُسی کے لیے
جوازِ ترکِ تعلق تو کچھ نہ تھا، پھر بھی
بِچھڑ گیا ہوں میں تجھ سے تِری خوشی کے لیے
کھُلا یہ بھید بھی، لیکن تجھے گنوا کے کھُلا
مُنافقت بھی ضروری تھی دوستی کے لیے

ہر درد پہن لینا ہر خواب میں کھو جانا

ہر درد پہن لینا، ہر خواب میں کھو جانا
کیا اپنی طبیعت ہے، ہر شخص کا ہو جانا
اِک شہر بسا لینا بِچھڑے ہوئے لوگوں کا
پھر شب کے جزیرے میں دل تھام کے سو جانا
موضوعِ سخن کچھ ہو، تا دیر اُسے تَکنا
ہر لفظ پہ رُک جانا، ہر بات پہ کھو جانا

کیا دوستوں کا رنج کہ بہتر نہیں ملے

کیا دوستوں کا رَنج کہ بہتر نہیں مِلے
دُشمن بھی ہم کو قد کے برابر نہیں مِلے
اس بحرِ آرزُو میں جو کرتے ہمیں تلاش
اب تک تو ہم کو ایسے شناور نہیں مِلے
بس ایسا کچھ ہُوا کہ سمجھ میں نہ آ سکا
دل مِل گئے، ہمارے مقدر نہیں مِلے

باتوں باتوں میں بچھڑنے کا اشارہ کر کے

باتوں باتوں میں بِچھڑنے کا اِشارہ کر کے
خود بھی رویا وہ بہت ہم سے کنارہ کر کے
سوچتا رہتا ہوں تنہائی میں انجامِ خلوص
پھر اسی جُرمِ محبت کو دوبارہ کر کے
جگمگا دی ہیں تیرے شہر کی گلیا‌ں میں نے
اپنے ہر اشک کو پلکوں پہ ستارہ کر کے

ڈھونڈتے کیا ہو ان آنکھوں میں کہانی میری

ڈھونڈتے کیا ہو ان آنکھوں میں کہانی میری
خود میں گم رہنا تو عادت ہے پرانی میری
بھِیڑ میں بھی تمہیں مل جاؤں گا آسانی سے
کھویا کھویا ہوا رہنا ہے نشانی میری
میں نے اِک بار کہا تھا، کہ بہت پیاسا ہوں
تب سے مشہور ہوئی تشنہ دہانی میری

یونہی سی ایک بات تھی اس کا ملال کیا کریں

یونہی سی ایک بات تھی اس کا ملال کیا کریں
میرِؔ خراب حال سا اپنا بھی حال کیا کریں
ایسی فضا کے قہر میں، ایسی ہوا کے زہر میں
زندہ ہیں ایسے شہر میں، اور کمال کیا کریں
اور بہت سی الجھنیں طوق و رَسن سے بڑھ کے ہیں
ذکرِ جمال کیا کریں، فکرِ وصال کیا کریں

ہر شام اس سے ملنے کی عادت سی ہو گئی

ہر شام اس سے مِلنے کی عادت سی ہو گئی
پھر رفتہ رفتہ اس سے محبت سی ہو گئی
شاید یہ تازہ تازہ جدائی کا تھا اثر
ہر شکل یک بیک تِری صورت سی ہو گئی
اِک نام جھِلملانے لگا دل کے طاق پر
اِک یاد جیسے باعثِ راحت سی ہو گئی

مجھے ملنے جب آیا، ساتھ پہرے دار لے آیا

مجھے مِلنے جب آیا، ساتھ پہرے دار لے آیا
وہ خُود تلوار تھا، اِک دوسری تلوار لے آیا
کہیں مل بیٹھتے ہم، گفتگو آرام سے کرتے
انا کی بے سبب وہ بیچ میں دیوار لے آیا
مِری پسپائی ناممکن تھی، لیکن میں بھی کیا کرتا
مِرا دشمن نہتے میرے سب سالار لے آیا

خزاں کے جانے سے ہو یا بہار آنے سے

خِزاں کے جانے سے ہو یا بہار آنے سے
چمن میں پھُول کھِلیں گے کسی بہانے سے
وہ دیکھتا رہے مُڑ مُڑ کے سُوئے دَر کب تک
جو کروٹیں بھی بدلتا نہیں ٹھکانے سے
اُگل نہ سنگِ ملامت، خُدا سے ڈر ناصح
مِلے گا کیا تُجھے شیشوں کے ٹُوٹ جانے سے

رخ پہ گیسو جو بکھر جائیں گے

رُخ پہ گیسُو جو بِکھر جائیں گے
ہم اندھیرے میں کِدھر جائیں گے
اپنے شانے پہ نہ زُلفیں چھوڑو
دل کے شیرازے بِکھر جائیں گے
یار آیا نہ اگر وعدے پر
ہم تو بے موت کے مر جائیں گے

اب ملاقات کہاں شیشے سے پیمانے سے

اب ملاقات کہاں شیشے سے، پیمانے سے
فاتحہ پڑھ کے چلے آتے ہیں مے خانے سے
کیا کریں، جام و سبو ہاتھ پکڑ لیتے ہیں
جی تو کہتا ہے کہ اُٹھ جائیے مے خانے سے
پھونک کر ہم نے ہر اِک گام پہ رکھا ہے قدم
آسماں پھر بھی نہ باز آیا سِتم ڈھانے سے

نہ اپنے ضبط کو رسوا کرو ستا کے مجھے

نہ اپنے ضبط کو رسوا کرو ستا کے مجھے
خُدا کے واسطے دیکھو نہ مُسکرا کے مجھے
سوائے داغ مِلا کیا چمن میں آ کے مجھے
قفس نصیب ہو آشیاں بنا کے مجھے
ادب ہے میں جھکائے ہوئے آنکھ اپنی
غضب ہے تم جو نہ دیکھو نظر اُٹھا کے مجھے

اب دم بخود ہیں نبض کی رفتار دیکھ کر

اب دَم بخود ہیں نبض کی رفتار دیکھ کر
تم ہنس رہے ہو، حالتِ بیمار دیکھ کر
سودا وہ کیا کرے گا خریدار دیکھ کر
گھبرا گیا جو گرمئ بازار دیکھ کر
اللہ! تیرے ہاتھ ہے اب آبروئے شوق
دَم گھُٹ رہا ہے وقت کی رفتار دیکھ کر

میری دعا کہ غیر پہ ان کی نظر نہ ہو

میری دعا، کہ غیر پہ ان کی نظر نہ ہو
وہ ہاتھ اٹھا رہے ہیں کہ یارب! اثر نہ ہو
ہم کو بھی ضِد یہی ہے کہ تیری سحر نہ ہو
اے شب! تجھے خدا کی قسم، مختصر نہ ہو
تم اِک طرف، تمہاری خدائی ہے اِک طرف
حیرت زدہ ہے دل کہ کِدھر ہو، کِدھر نہ ہو

تنگ آ گئے ہیں کیا کریں اس زندگی سے ہم

تنگ آ گئے ہیں کیا کریں اس زندگی سے ہم
گھبرا کے پوچھتے ہیں اکیلے میں جی سے ہم
مجبوریوں کو اپنی کہیں کیا کسی سے ہم
لائے گئے ہیں، آئے نہیں ہیں خوشی سے ہم
کمبخت دل کی مان گئے، بیٹھنا پڑا
یوں تو ہزار بار اٹھے اس گلی سے ہم

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

سرفروشی کی تمنّا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
اے شہیدِ مُلک و مِلت! میں تِرے اوپر نثار
لے تِری ہِمّت کا چرچا غیر کی محفل میں ہے
وائے قسمت پاؤں کی اے ضُعف کچھ چلتی نہیں
کارواں اپنا ابھی تک پہلی ہی منزل میں ہے

اب رہا کیا ہے جو اب آئے ہیں آنے والے

اب رہا کیا ہے جو اب آئے ہیں آنے والے
جان پر کھیل چکے جان سے جانے والے
یہ نہ سمجھے تھے کہ یہ دن بھی ہیں آنے والے
انگلیاں ہم پہ اٹھائیں گے اٹھانے والے
کون سمجھائے، نہ اِٹھلا کے سرِ رہ چلیے
ہیں یہ انداز گنہ گار بنانے والے

دل شاخوں پہ کھل اٹھیں گے پھول مرادوں والے

دل شاخوں پہ کھِل اٹھیں گے پھُول، مُرادوں والے
جس دن ہم سے آن ملیں گے ساجن وعدوں والے
منظر منظر ڈھونڈ رہے ہیں ایک پھُول سا چہرہ
جس سے کچھ دن وابستہ ہیں اچھی یادوں والے
دل پہ یہ کیسی چادر ہے ایک گھنیرے دُکھ کی
جیسے شہر پہ گہرے بادل ساون بھادوں والے

پھر بجز دشت کہاں جا کے رہیں چاہنے والے تیرے

پھر بجُز دشت کہاں جا کے رہیں چاہنے والے تیرے
عرصۂ شہر میں عُنقا ہیں زمانے سے حوالے تیرے
تُو نے کوتاہی نہ کی خاک اڑانے میں ہماری تو کیا
ہم نے بھی باغ میں کلیوں میں بہت رنگ اچھالے تیرے
یہ الگ بات کہ ہے اس میں زیاں ان کا سراسر لیکن
نقدِ جاں نیزوں پہ رکھے ہوئے پھِرتے ہیں جیالے تیرے

کوئی شخص کب سے بسا ہوا مرے شہر جاں میں عجیب ہے

کوئی شخص کب سے بسا ہوا مِرے شہرِ جاں میں عجیب ہے
جو خزاں کی راہ میں یار ہے، جو گلاب رُت میں رقیب ہے
میں چراغ بن کے جلوں تو کیا، سرِ شاخِ سبز کھِلوں تو کیا
یہ ہوا جو میرے جلَو میں ہے، یہ زیاں جو میرا نصیب ہے
نہ کوئی کِرن مِری راہ میں، نہ وہ چاند چہرہ نگاہ میں
مِرا دشت کتنا طویل ہے، مِری رات کتنی مہیب ہے

کچھ سائے ماضی و حال کے ہیں کچھ منظر استقبال کے ہیں

کچھ سائے ماضی و حال کے ہیں کچھ منظر استقبال کے ہیں
کچھ راتیں ہجر پہ آمادہ، کچھ لمحے شوقِ وصال کے ہیں
اس شہرِ زیاں سے باہر کے، منظر ہوں مبارک یاروں کو
ہم خُوگر دھوپ کی شدت کے، ہم عادی گردِ ملال کے ہیں
اِک نہر رواں ہے جذبوں کی، ہم جس کے کنارے بیٹھے ہیں
اسباب ہے کچھ اندیشوں کا،کچھ خیمے خواب و خیال کے ہیں

میں وحشت خوردہ آہو تھا دنیا نے مجھے زنجیر کیا

میں وحشت خوردہ آہُو تھا دنیا نے مجھے زنجیر کیا
مِری کھال کو اپنے کمروں کی آرائش سے تعبیر کیا
تھی چہروں کی پہچان مجھے،اس جرم پہ ظالم لوگوں نے
مِرے سر کو نیزے پر رکھا، مِرے دل میں ترازو تیر کیا
ہر دھوپ کو تیرے روپ کی چھَب، ہر رنگ کو تیرا رنگِ لب
ہر جھیل سمندر دریا کو تِری آنکھوں سے تعبیر کیا

Friday 8 May 2015

میں جھوٹا حرف گواہی کا، میں کاذب لفظ کہانی کا

میں جھُوٹا حرف گواہی کا، میں کاذب لفظ کہانی کا
کیوں اب تک رشتہ باقی ہے، مِری آنکھوں سے حیرانی کا
میں ابرِ وصال میں بھِیگ چکا، میں ہِجر کی آگ میں راکھ ہوا
دل دریا اب بھی جوش میں ہے،عالم ہے وہی طغیانی کا
میں تنہائی کے ساحل پر، مصروفِ نظارہ ہوں کب سے
اِک اپنا حُسن نِرالا ہے یاں ہر موجِ امکانی کا

وہ لوگ بھی کیسے لوگ ہیں جو کوئی بات فضول نہیں کرتے

وہ لوگ بھی کیسے لوگ ہیں جو کوئی بات فضول نہیں کرتے
یہ سارے قِصے جھُوٹے ہیں، ہم ان کو قبول نہیں کرتے
تمہیں علم نہیں ہے یقین کرو، میں قریب سے جانتا ہوں ان کو
کچھ سوداگر ایسے بھی ہیں، جو قرض وصول نہیں کرتے
میں پتھر لے کر بیٹھا ہوں اور اس بستی کے دانا اب
کیوں کارِ شیشہ گری کر کے مجھ کو مشغول نہیں کرتے

میں سوچ رہا ہوں اب کے بڑا کمال ہوا

میں سوچ رہا ہوں اب کے بڑا کمال ہوا
مجھے اس سے بِچھڑتے وقت ذرا نہ ملال ہوا
اِک محفل کچھ دن گرم رہی ہنگاموں کی
اور اس کے بعد سبھی کچھ خواب و خیال ہوا
اب یاد سفر کا قِصہ ہے بس اتنا سا
مجھے پیاس لگی، مِرے ہونٹ جلے میں نڈھال ہوا

سب کے پیروں میں وہی رزق کا چکر کیوں ہے

سب کے پیروں میں وہی رزق کا چکر کیوں ہے
گِریہ اس عہد کے لوگوں کا مقدر کیوں ہے
یہ جو منظر ہیں بڑے کیوں ہیں مِری آنکھوں سے
یہ جو دنیا ہے مِرے دل کے برابر کیوں ہے
آسمانوں پہ بہت دیر سے ٹھہری ہے شفق
سوچتا ہوں کہ ابھی تک یہی منظر کیوں ہے

کہتے ہیں لوگ شہر تو یہ بھی خدا کا ہے

کہتے ہیں لوگ شہر تو یہ بھی خدا کا ہے
منظر یہاں تمام مگر کربلا کا ہے
آتے ہیں برگ و بار درختوں کے جسم پر
تم بھی اٹھاؤ ہاتھ کہ موسم دعا کا ہے
غیروں کو کیا پڑی ہے کہ رُسوا کریں مجھے
ان سازشوں میں ہاتھ کسی آشنا کا ہے

گھر دیکھتے نہ گھر کے دروبام دیکھتے

گھر دیکھتے نہ گھر کے دروبام دیکھتے
بس تیرا خواب ہی سحر و شام دیکھتے
لوحِ خیال پر تِری تصویر کھینچتے 
دل کے ورق پہ لِکھ کے تِرا نام دیکھتے
یہ شاخچے یہ پھول یہ لِکھتے ہوئے چمن 
حیرت سے تِتلیوں کو تہِ دام دیکھتے 

چھڑائیں کس طرح پیچھا ترے غم سے

چھُڑائیں کس طرح پیچھا تِرے غم سے
یہی تو طے نہیں ہو پائے گا ہم سے
ابھی پہلُو سے نکلا تھا کہ پھر آ کر
خیالِ یار، دل پر آ گِرا دَھم سے
تجھے دیکھیں تو کیسے جانِ جاں! اب تک
یہ آنکھیں تَر ہیں تیرے ہِجر کے نَم سے

خمار ذات کی حدت سے جھومتا ہوا دیکھ

خمارِ ذات کی حِدت سے جھُومتا ہُوا دیکھ
دِیا ہوا کے سمندر میں تیرتا ہوا دیکھ
نظر اٹھا سرِ آئینۂ فراق، اور پھر
خزاں کا رنگ رگِ گُل میں رینگتا ہوا دیکھ
اب ایسے وقت میں تُو کیا کرے گا میرے لیے
چل ایسا کر، مِری سانسوں کو ٹُوٹتا ہوا دیکھ

ایک سے ایک انوکھا ستم ایجاد کیا

ایک سے ایک انوکھا ستم ایجاد کیا
تُو نے ہر دل کو نئے ڈھنگ سے برباد کیا
پھر سے کچھ جمع کیے ہم نے تِرے خواب، سراب
پھر انہیں اس دلِ مسمار کی بنیاد کیا
شامِ آوارگی تھی، میں بھی تھا اور میرا رقیب
دیر تک بیٹھ کے پھر ہم نے تجھے یاد کیا

اک خواب ہے اس خواب کو کھونا بھی نہیں ہے

اک خواب ہے، اس خواب کو کھونا بھی نہیں ہے
تعبیر کے دھاگے میں پرونا بھی نہیں ہے
لپٹا ہوا ہے دل سے کسی راز کی صورت
اک شخص کہ جس کو مِرا ہونا بھی نہیں ہے
رکھنا ہے سرِ چشم اسے ساکت و جامد
پانی میں ابھی چاند بھگونا بھی نہیں ہے

طلسم اسم محبت ہے درپئے در دل

طلسمِ اسمِ محبت ہے درپئے درِ دل
کوئی بتائے اب اس کا کرے تو کیا کرے دل
فسونِ جنبشِ مژگاں نہ پوچھئے، سرِ راہ
پکارتے ہی رہے ہم ارے! ارے! ارے دل
پھر اس کے بعد ہمیں یہ بھی تو نہیں رہا یاد
نظر گِری ہے کہاں، کھو گیا کہاں زرِ دل

عشاق بہت ہیں ترے بیمار بہت ہیں

عشاق بہت ہیں، تِرے بیمار بہت ہیں
تجھ حٗسنِ دلآرام کے حقدار بہت ہیں
اے سنگ صفت! آ کے سرِ بام ذرا دیکھ
اِک ہم ہی نہیں، تیرے طلبگار بہت ہیں
بے چین کیے رکھتی ہے ہر آن یہ دل کو
کم بخت محبت کے بھی آزار بہت ہیں

آپ سے مل کے ہم کچھ بدل سے گئے شعر پڑھنے لگے گنگنانے لگے

آپ سے مل کے ہم کچھ بدل سے گئے، شعر پڑھنے لگے گنگنانے لگے
پہلے مشہور تھی اپنی سنجیدگی، اب تو جب دیکھیے مسکرانے لگے
ہم کو لوگوں سے ملنے کا کب شوق تھا، محفل آرائی کا کب ہمیں ذوق تھا
آپ کے واسطے ہم نے یہ بھی کیا، ملنے جلنے لگے، آنے جانے لگے
ہم نے جب آپ کی دیکھیں دلچسپیاں، آ گئیں چند ہم میں بھی تبدیلیاں
اک مصور سے بھی ہو گئی دوستی، اور غزلیں بھی سننے سنانے لگے

کس شے پہ یہاں وقت کا سایہ نہیں ہوتا

کِس شے پہ یہاں وقت کا سایہ نہیں ہوتا
اِک خوابِ محبت ہے کہ بوڑھا نہیں ہوتا
وہ وقت بھی آتا ہے جب آنکھوں میں ہماری
پھرتی ہیں وہ شکلیں جنہیں دیکھا نہیں ہوتا
بارش وہ برستی ہے کہ بھر جاتے ہیں جل تھل
دیکھو تو کہیں ابر کا ٹکڑا نہیں ہوتا

ترے دیوانے ہر رنگ رہے ترے دھیان کی جوت جگائے ہوئے

تِرے دیوانے ہر رنگ رہے، تِرے دھیان کی جوت جگائے ہوئے
کبھی نتھرے سُتھرے کپڑوں میں، کبھی انگ بھبھوت رمائے ہوئے
اس راہ سے چھپ چھپ کر گزری، رُت سبز سنہرے پھولوں کی
جس راہ پہ تم کبھی نکلے تھے، گھبرائے ہوئے، شرمائے ہوئے
اب تک ہے وہی عالم دل کا، وہی رنگِ شفق، وہی تیز ہوا
وہی سارا منظر جادو کا، میرے نین سے نین ملائے ہوئے

دلوں کی اور دھواں سا دکھائی دیتا ہے

دلوں کی اور دھواں سا دکھائی دیتا ہے
یہ شہر تو مجھے جلتا دکھائی دیتا ہے
جہاں کہ داغ ہے، یاں آگے درد رہتا تھا
مگر یہ داغ بھی جاتا دکھائی دیتا ہے
پکارتی ہیں بھرے شہر کی گُزرگاہیں
وہ روز شام کو تنہا دکھائی دیتا ہے

اشک دامن میں بھرے خواب کمر پر رکھا

اشک دامن میں بھرے، خواب کمر پر رکھا
پھر قدم ہم نے تِری راہگزر پر رکھا
ہم نے ایک ہاتھ سے تھاما شبِ غم کا آنچل
اور اِک ہاتھ کو دامانِ سحر پر رکھا
چلتے چلتے جو تھکے پاؤں تو ہم بیٹھ گئے
نیند گٹھڑی پہ دھری، خواب شجر پر رکھا

الجھے رہے تم ہم سے بنا بات کے لوگو

الجھے رہے تم ہم سے بِنا بات کے لوگو
ہم صرف مخالف تھے سیہ رات کے لوگو
کچھ شہر میں رسمِ وفا اور طرح کی
کچھ ہم بھی ہیں اندر سے مضافات کے لوگو
لوٹ آتے ہیں بازار سے تھک ہار کے ہر شام
ہم زخم لیے دل میں سوالات کے لوگو

اک صبح شب آثار ہے اس پار بھی اس پار بھی

اک صبحِ شب آثار ہے اِس پار بھی اُس پار بھی
کچھ روشنی درکار ہے اس پار بھی اس پار بھی
شیشہ بنانا سنگ کو، گویائی دینا رنگ کو
اب یہ ہنر بے کار ہے اس پار بھی اس پار بھی
کلیوں کو چھو کر آئے گی لیکن صبا کیا لائے گی
پابندئ اظہار ہے اس پار بھی اس پار بھی

صرف اتنا ہی نہیں دھوپ بڑھا دی اس نے

صرف اتنا ہی نہیں دھوپ بڑھا دی اس نے
دکھ کی دیوار سے ہر چھاؤں لگا دی اس نے
پچھلا ہی نوحہ مکمل نہیں ہو پایا تھا
میرے بغداد کو پھر آگ لگا دی اس نے
کوئی رَستہ، نہ کوئی رَستہ بتانے والا
کیسے بے فیض زمانے میں صدا دی اس نے

باہر سے نہیں ٹوٹ کے اندر سے گرا ہوں

باہر سے نہیں ٹوٹ کے اندر سے گِرا ہوں
اس بار میں اک دستِ ہنرور سے گرا ہوں
ان نظروں سے گرنے کا سبب تو نہیں معلوم
بس اتنا پتہ ہے بہت "اوپر" سے گرا ہوں
رکھ لے گا مری خاک نمائش کے لیے وہ
میں جلتا ہوا رات کے منظر سے گرا ہوں

یہ کیسا شہر ہے جس میں مکمل گھر نہیں ملتا

یہ کیسا شہر ہے جس میں مکمل گھر نہیں ملتا
کسی کو چھت نہیں ملتی کسی کو در نہیں ملتا
اٹھا رکھے ہیں اپنے نا مکمل جسم لوگوں نے
کسی کے پاؤں غائب ہیں، کسی کا سر نہیں ملتا
گھِری رہتی ہیں جانے کس بلا کے خوف میں گلیاں
یہاں روشن دنوں میں بھی کوئی باہر نہیں ملتا

اس عہد کے مزاج سے ڈر جانا چاہیے

اِس عہد کے مزاج سے ڈر جانا چاہیے
کہنا ہو سچ تو کہہ کے مُکر جانا چاہیے
جلتی ہیں روز جس کے اشارے پہ بستیاں
اس آنکھ تک دھوئیں کا اثر جانا چاہیے
ہم وہ سفر نصیب ہیں جن کو خبر نہیں
کسی سمت جا رہے ہیں، کدھر جانا چاہیے

چاندی ہوتے بال

ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے

چاندی ہوتے بال
آئینہ شہزادی کو
کر دے روز نِڈھال

اظہر ادیب

برسوں چنی کپاس

ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے

برسوں چُنی کپاس
سپنے بُنتی لڑکی کا
بدلا نہیں لباس

اظہر ادیب

تم ڈھونڈنے چلے ہو مقدر کرائے پر

تم ڈھونڈنے چلے ہو مقدر کرائے پر
ملتے ہیں اس نگر میں تو خنجر کرائے پر
منظور ہے بہن کی اگر رخصتی تجھے
لے آ کسی دکان سے زیور کرائے پر
آخر منیرؔ وہ بھی تو بیٹی کسی کی تھی
اٹھتی رہی جو رات کو اکثر کرائے پر

منیر راہی

اگر کہیں سے یہ مکمل غزل مل سکے تو کیا ہی بات ہو

Wednesday 6 May 2015

مجھے بھی وحشت صحرا پکار میں بھی ہوں

مجھے بھی وحشتِ صحرا پکار میں بھی ہوں
تِرے وصال کا امیدوار میں بھی ہوں
پرِند کیوں مِری شاخوں سے خوف کھاتے ہیں
کہ اِک درخت ہوں اور سایہ دار میں بھی ہوں
مجھے بھی حکم مِلے، جان سے گزرنے کا
میں انتظار میں ہوں، شہسوار میں بھی ہوں

بستیوں میں آہ و زاری ہو رہی ہے شام سے

بستیوں میں آہ و زاری ہو رہی ہے شام سے
کچھ نہ کچھ نازل تو ہو گا چرخِ نیلی فام سے
دشتِ غُربت میں ہوا ساری طنابیں لے اڑی
میرا خیمہ رہ سکا کب ایک پَل آرام سے
اب تو آوازوں کے جمگھٹ ہیں مِرے چاروں طرف
رابطہ پہلے تھا میرا بس سکوتِ شام سے

راستہ کوئی سفر کوئی مسافت کوئی

راستہ کوئی، سفر کوئی، مسافت کوئی
پھر خرابی کی عطا ہو مجھے صورت کوئی
سارے دریا ہیں یہاں موج میں اپنی اپنی
میرے صحرا کو نہیں ان سے شکایت کوئی
جم گئی دُھول ملاقات کے آئینوں پر
مجھ کو اس کی نہ اسے میری ضرورت کوئی

پوشیدہ کیوں ہے طور پہ جلوہ دکھا کے دیکھ

پوشیدہ کیوں ہے طور پہ جلوہ دکھا کے دیکھ
اے دوست! میری تاب نظر آزما کے دیکھ
پھولوں کی تازگی ہی نہیں دیکھنے کی چیز
کانٹوں کی سمت بھی تو نگاہیں اٹھا کے دیکھ
لیتا نہیں کسی کا پسِ مرگ کوئی نام
دنیا کو دیکھنا ہے تو دنیا سے جا کے دیکھ

ہنسی لبوں پہ سجائے اداس رہتا ہے

ہنسی لبوں پہ سجائے اداس رہتا ہے
یہ کون ہے جو میرے گھر کے پاس رہتا ہے
یہ اور بات کہ ملتا نہیں کوئی اس سے
مگر وہ شخص سراپا سپاس رہتا ہے
جہاں پہ ڈوب گیا میری آس کا سورج
اسی جگہ وہ ستارہ شناس رہتا ہے

سر طور کوئی جائے اسے آپ کیا کہیں گے​

عارفانہ کلام نعتیہ کلام

سرِ طُور کوئی جائے، اسے آپ کیا کہیں گے​
جسے خود خُدا بلائے، اسے آپ کیا کہیں گے​
جو ہوا کا رُخ بدل دے، ہمیں دعوتِ عمل دے​
جو شعور کو جگائے، اسے آپ کیا کہیں گے​
شب و روز دشمنوں کو جو دعاؤں سے نوازے​
جو ستم پہ مسکرائے، اسے آپ کیا کہیں گے​

Tuesday 5 May 2015

شجر کی چھاؤں نہ دی سایہ غبار دیا

شجر کی چھاؤں نہ دی، سایۂ غبار دیا
مجھے تو دشت میں اپنی طلب نے مار دیا
میں تیری رو میں گھڑی دو گھڑی کو آیا تھا
اور اِک زمانہ تِرے دھیان میں گزار دیا
تِرا جمال نہ آفاق بھی سمیٹ سکیں
مِری نگاہ سے دامن کہاں پسار دیا

دل بھرے دیوار و در میں بے نوا کیوں کر ہوا

دل بھرے دیوار و در میں بے نوا کیوں کر ہوا
شہر میں حرفِ وفا رزقِ ہوا، کیوں کر ہوا
تُو میری بانہوں میں تھا اور میں تیری راہوں میں تھا
تیرے میرے درمیاں پھر فاصلہ کیوں کر ہوا
جو میری خاطر نہیں، کیسے اُسے اپنا کہوں
میں نہیں جس میں وہ میرا آئینہ کیوں کر ہوا

اسی حریف کی غارت گری کا ڈر بھی تھا

اسی حریف کی غارت گری کا ڈر بھی تھا
یہ دل کا درد مگر زادِ رہگزر بھی تھا
اسی پہ شہر کی ساری ہوائیں برہم تھیں
کہ اِک دِیا مِرے گھر کی منڈیر پر بھی تھا
یہ جسم و جان تیری ہی عطا سہی، لیکن
تِرے جہان میں جینا مِرا ہُنر بھی تھا

کس تکلف سے ہمیں زیرِ اماں رکھا گیا

کس تکلف سے ہمیں زیرِ اماں رکھا گیا
آہنی پنجرے میں اپنا آشیاں رکھا گیا
ایک ہی زنجیر تھی، اِس پار سے اُس پار تک
کَج روی کا کوئی وقفہ ہی کہاں رکھا گیا
اب تو ہم آپس میں بھی مِلتے نہیں، کھُلتے نہیں
کس بَلا کا خوف اپنے درمیاں رکھا گیا

دریا تو بل دکھائے گا اپنے بہاؤ کا

دریا تو بَل دکھائے گا اپنے بہاؤ کا
سہنا ہے اِک جہان کو صدمہ کٹاؤ کا
دنیا سے ڈر کے آئے تھے جس کی پناہ میں
چارہ نہیں اب اس کی ہوس سے بچاؤ کا
ہر لَو کو چاٹتی ہوئی بارش کی رات میں
روشن ہے اِک چراغ ابھی دل کے گھاؤ کا

نہیں کہ صرف پرندے اڑا دیے اس نے

نہیں کہ صرف پرندے اڑا دیے اس نے
سدا بہار شجر بھی جلا دیے اس نے
جو کوہِ زرد سے اترا بڑا سخی بن کر
ہمارے ہاتھ میں کاسے تھما دیے اس نے
یہ حکم ہے کہ انہیں خلعتیں کہا جائے
جو چیتھڑے سے بنامِ خدا دیے اس نے

ہم ایک تیری نظر میں بحال ہونے لگے

ہم ایک تیری نظر میں بحال ہونے لگے
تو کتنے آئینہ خانے سوال ہونے لگے
تُو ساتھ تھا تو گھنے سائے بھی سلامت تھے
جدا ہوا تو شجر بھی نڈھال ہونے لگے
کبھی جو تیرے تصور پہ آنچ بھی آئی
دھواں دھواں سے مِرے خدوخال ہونے لگے

Monday 4 May 2015

شام آئی تو کوئی خوش بدنی یاد آئی

شام آئی تو کوئی خوش بَدَنی یاد آئی
مجھے اِک شخص کی وعدہ شِکنی یاد آئی
مجھے یاد آیا کہ وہ دَور تھا سرگوشی کا
آج اسی دَور کی اِک کم سُخنی یاد آئی
مسندِ نغمہ سے اِک رنگِ تبسم ابھرا
کھِلکھِلاتی ہوئی غُنچہ دَہَنی یاد آئی

یہ محفل کی خاموشی ہے یا اظہار کی تنہائی

یہ محفل کی خاموشی ہے، یا اِظہار کی تنہائی
ہر سرگوشی میں پِنہاں ہے اِک پِندار کی تنہائی
ایک بہار کے آ جانے سے کیسے گم ہو جائے گی
ایک طویل خزاں میں لِپٹے اِک گلزار کی تنہائی
ہِجر کی دھوپ سے ڈرنے والا اِک سائے میں جا بیٹھا
لیکن جس کو سایہ سمجھا، تھی دیوار کی تنہائی

اب کہاں ہیں نگہ یار پہ مرنے والے

اب کہاں ہیں نِگہِ یار پہ مرنے والے
صورتِ شمع سرِ شام سنورنے والے
رونقِ شہر انہیں اپنے تجسّس میں نہ رکھ
یہ مسافر ہیں کسی دل میں ٹھہرنے والے
کس قدر کرب میں بیٹھے ہیں سرِ ساحلِ غم
ڈوب جانے کی تمنا میں ابھرنے والے

کتنے موسم سرگرداں تھے مجھ سے ہاتھ ملانے میں

کتنے موسم سرگرداں تھے مجھ سے ہاتھ ملانے میں
میں نے شاید دیر لگا دی خود سے باہر آنے میں
ایک نگاہ کا سناٹا ہے، اک آواز کا بنجر پن
میں کتنا تنہا بیٹھا تھا قربت کے ویرانے میں
بستر سے کروٹ کا رشتہ ٹوٹ گیا اک یاد کے ساتھ
خواب سرہانے سے اٹھ بیٹھا تکیے کو سرکانے میں

رستے میں جب شام آ جائے صبح بہت یاد آتی ہے

رَستے میں جب شام آ جائے صبح بہت یاد آتی ہے
ایک ملال کی لہر لہو میں آنسو ٹپکا جاتی ہے
شام آتے ہی تنہائی کے رنگ چمکنے لگتے ہیں
ایک اداسی دل کے اندر اپنے پاؤں جماتی ہے
ایک عجیب رفاقت ہے جو کھُل کر بھی کھُلتی ہی نہیں
روز نئے پیرائے میں اپنا احوال سناتی ہے

جو بات شرط وصال ٹھہری وہی ہے اب وجہ بدگمانی

جو بات شرطِ وصال ٹھہری وہی ہے اب وجہ بد گمانی
ادھر ہے اس بات پر خموشی ادھر ہے پہلی سے بے زبانی
کسی ستارے سے کیا شکایت کہ رات سب کچھ بجھا ہوا تھا
فسردگی لکھ رہی تھی دل پر شکستگی کی نئی کہانی
عجیب آشوبِ وضع داری ہمارے اعصاب پر ہے طاری
لبوں پہ ترتیب خوش کلامی دلوں میں تنظیمِ نوحہ خوانی

کچھ نہ پانے کی ملامت کچھ نہ کھونے کا تماشا

کچھ نہ پانے کی ملامت، کچھ نہ کھونے کا تماشا
جانے کتنے دن رہے گا میرے ہونے کا تماشا
اس ادھوری گفتگو سے خود کو میں بہلاؤں کب تک
مجھ کو یہ محفل نظر آتی ہے رونے کا تماشا
یہ کوئی بارش نہیں ہے جس میں سب کچھ بھیگ جائے 
یہ ہے خواہش کی زمیں پر رونے دھونے کا تماشا

تشنگی وہ تھی کہ سیرابی کا چہرہ جل گیا

تشنگی وہ تھی کہ سیرابی کا چہرہ جل گیا
میں لبِ دریا جو پہنچا سارا دریا جل گیا
اب نئے منظر میں بیٹھا ہوں ارادوں کے بغیر
جُستجُو کی سانس کیا پھُولی کہ سینہ جل گیا
میں خزاں کا آئینہ تھا اپنی ویرانی سے خوش
تم نے مجھ میں باغ ڈھونڈا، میرا صحرا جل گیا

اب کے بچھڑا ہے تو کچھ ناشادماں وہ بھی تو ہے

اب کے بچھڑا ہے تو کچھ ناشادماں وہ بھی تو ہے
دھوپ ہم پر ہی نہیں، بے سائباں وہ بھی تو ہے
شکوۂ بیدادِ موسم اس سے کیجیے بھی تو کیوں
کیا کرے وہ بھی کہ زیرِ آسماں وہ بھی تو ہے
اور اب کیا چاہتے ہیں لوگ، دیکھیں تو سہی
دربدر ہم ہی نہیں، بے خانماں وہ بھی تو ہے

محافظ روش رفتگاں کوئی نہیں ہے

محافظِ روشِ رفتگاں، کوئی نہیں ہے
جہاں کا میں ہوں مِرا اب وہاں کوئی نہیں ہے
محاذِ زیست کے ہر معرکے میں فتح کے بعد
کھُلا، کہ حاصلِ عمرِ رواں کوئی نہیں ہے
ستارگاں سے جو پوچھا، کہ اُس طرف کیا ہے
چمک کے بولے کہ اے جانِ جاں! کوئی نہیں ہے

مرا ہر لفظ بے توقیر رہنے کے لئے ہے

مِرا ہر لفظ بے توقیر رہنے کے لیے ہے
مِرا ہر خوف دامن گیر رہنے کے لیے ہے
میں جس شہرِ جمال آثار کا مارا ہوا ہوں
وہ سارا شہر بے تعمیر رہنے کے لیے ہے
میں ایسے خواب کی پاداش میں معتوب ٹھہرا
جو ساری عمر بے تعبیر رہنے کے لیے ہے

ملک سخن میں درد کی دولت کو کیا ہوا

ملکِ سخن میں درد کی دولت کو کیا ہوا
اے شہرِ میرؔ! تیری روایت کو کیا ہوا
ہم تو سدا کے بندۂ زر تھے ہمارا کیا
نام آورانِ عہدِ بغاوت کو کیا ہوا
گرد و غبارِ کوچۂ شہرت میں آ کے دیکھ
آسودگانِ کنجِ قناعت کو کیا ہوا

Sunday 3 May 2015

بیاباں‌ دور تک میں نے سجایا تھا

بیاباں‌ دور تک میں نے سجایا تھا
مگر وہ شہر کے رستے سے آیا تھا
دیئے کی آرزو کو جب بجھایا تھا
پھر اس کے بعد آہٹ تھی نہ سایہ تھا
اسے جب دیکھنے کے بعد دیکھا تو
وہ خود بھی دل ہی دل میں مسکرایا تھا

ملنے کی ہر آس کے پیچھے اندیکھی مجبوری تھی

مِلنے کی ہر آس کے پیچھے ان دیکھی مجبوری تھی
راہ میں دشت نہیں پڑتا تھا چار گھروں کی دوری تھی
آنکھوں کی تکمیل ہوئی یا خوابوں کی بے نوری تھی
رنگوں کی جھنکار کے پیچھے ہر تصویر ادھوری تھی
جذبوں کا دَم گھٹنے لگا ہے لفظوں کے انبار کے پیچھے
پہلے نشاں زَد کر لینا تھا جتنی بات ضروری تھی

جو پیاس وسعت میں بے کراں ہے سلام اس پر

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ امام حسینؑ

جو پیاس وسعت میں بے کراں ہے، سلام اس پر
فرات جس کی طرف رواں ہے، سلام اس پر
سبھی  کنارے اسی کی جانب کریں اشارے
جو کشتئ حق کا بادباں ہے، سلام اس پر
جو پھول تیغِ اصول سے ہر خزاں کو کاٹیں
وہ ایسے پھولوں کا پاسباں ہے، سلام اس پر

کشتی بھی نہیں بدلی دریا بھی نہیں بدلا

کشتی بھی نہیں بدلی دریا بھی نہیں بدلا
اور ڈوبنے والوں کا جذبہ بھی نہیں بدلا
تصویر نہیں بدلی، شیشہ بھی نہیں بدلا 
نظریں بھی سلامت ہیں چہرہ بھی نہیں بدلا
ہے شوقِ سفر ایسا اِک عمر سے یاروں نے
منزل بھی نہیں پائی، رَستہ بھی نہیں بدلا

Saturday 2 May 2015

پھر کہیں چھپتی ہے ظاہر جب محبت ہو چکی

پھر کہیں چھپتی ہے ظاہر جب محبت ہو چکی
ہم بھی رسوا ہو چکے ان کی بھی شہرت ہو چکی
دیکھ کر آئینہ، آپ ہی آپ وہ کہنے لگے 
شکل یہ پریوں کی، یہ حوروں کی صورت ہو چکی
مر گئے ہم مر گئے، اس ظلم کی کچھ حد بھی ہے
بے وفائی ہو چکی، اے بے مروت! ہو چکی

تم نے بدلے ہم سے گن گن کے لئے

تم نے بدلے ہم سے گِن گِن کے لیے
ہم نے کیا چاہا تھا اس دِن کے لیے
کچھ نِرالا ہے جوانی کا بناؤ
شوخیاں زیور ہیں اس سِن کے لیے
وصل میں تنگ آ کے وہ کہنے لگے
کیا یہ جوبن تھا اسی دِن کے لیے

تم آتے پاس تو یوں شرح آرزو کرتے

تم آتے پاس تو یوں شرحِ آرزو کرتے
کہ نذرِ چشم، کلیجے کا ہم لہو کرتے
کلیمؑ صرف ارنی کہہ کے ہو گئے خاموش
ہزار رنگ سے مطلب کی گفتگو کرتے
وہ کہتے ہیں کہ کوئی تو ضرور ہو گی غرض
کسی کو یوں نہیں دیکھا ہے دل لہو کرتے

سنتا ہے کون کس سے کہیں بزم یار میں

سنتا ہے کون، کس سے کہیں بزمِ یار میں
بیٹھے ہی بیٹھے دل نہ رہا اختیار میں
کیا کیا تڑپ تڑپ کے پکارے ہیں تم کو ہم
کیا کیا اٹھا ہے درد، دلِ بے قرار میں
آنکھیں اجل کے بند کیے بھی نہ ہوں گی بند
جاگا ہوں اس طرح سے شبِ انتظار میں

فدا برق نگہ کے آنکھ بھر کر دیکھتے جاؤ

فدا برقِ نِگہ کے، آنکھ بھر کر دیکھتے جاؤ
جو دیکھا جائے حالِ قلبِ مضطر دیکھتے جاؤ
تمنائے قتیلِ ناز کو دیکھو نہ دیکھو تم
نزاکت سے رکا جاتا ہے خنجر، دیکھتے جاؤ
ہماری گرد دامانِ ہوا سے اڑتی آتی ہے
ذرا اے رہروانِ کوئے دلبر، دیکھتے جاؤ

کہوں کس سے رات کا ماجرا نئے منظروں پہ نگاہ تھی

کہوں کس سے رات کا ماجرا، نئے منظروں پہ نگاہ تھی
نہ کسی کا دامن، چاک تھا، نہ کسی کی طرف کلاہ تھی
کئی چاند تھے سرِ آسماں کہ چمک چمک کے پلٹ گئے
نہ لہو مِرے ہی جگر میں تھا، نہ تمہاری زلف سیاہ تھی
دلِ کم الم پہ وہ کیفیت کہ ٹھہر سکے نہ گزر سکے
نہ حضر ہی راحتِ روح تھا، نہ سفر میں رامشِ راہ تھی

کہاں کی گونج دل ناتواں میں رہتی ہے

کہاں کی گونج دلِ ناتواں میں رہتی ہے
کہ تھرتھری سی عجب جسم و جاں میں رہتی ہے
مزہ تو یہ ہے کہ وہ خود تو ہے نئے گھر میں
اور اس کی یاد پرانے مکاں میں رہتی ہے
اگرچہ اس سے مِری بے تکلفی ہے بہت
جھجک سی ایک مگر درمیاں میں رہتی ہے

کہاں ڈھونڈیں اسے کیسے بلائیں

کہاں ڈھونڈیں اسے، کیسے بلائیں
یہاں اپنی بھی آوازیں نہ آئیں
پرانا چاند ڈوبا جا رہا ہے
وہ اب کوئی نیا جادو جگائیں
اب ایسا ہی زمانہ آ رہا ہے
عجب کیا، وہ تو آئیں ہم نہ آئیں

چاند اس گھر کے دریچوں کے برابر آیا

چاند اس گھر کے دریچوں کے برابر آیا
دلِ مشتاقؔ ٹھہر جا، وہی منظر آیا
میں بہت خوش تھا کڑی دھوپ کے سناٹے میں
کیوں تِری یاد کا بادل میرے سر پر آیا
بجھ گئی رونقِ پروانہ، تو محفل چمکی
سو گئے اہلِ تمنا تو ستمگر آیا

یہ تنہا رات یہ گہری فضائیں

یہ تنہا رات، یہ گہری فضائیں
اسے ڈھونڈیں کہ اس کو بھول جائیں
خیالوں کی گھنی خاموشیوں میں
گُھلی جاتی ہیں لفظوں کی صدائیں
یہ رَستے رہروؤں سے بھاگتے ہیں
یہاں چھپ چھپ کے چلتی ہیں ہوائیں

یہ کس ترنگ میں ہم نے مکان بیچ دیا

یہ کس ترنگ میں ہم نے مکان بیچ دیا
درخت کاٹ لئے، سائبان بیچ دیا
دری لپیٹ کے رکھ دی، بساط الٹ ڈالی
چراغ توڑ دئیے، شمع دان بیچ دیا
خزاں کے ہاتھ خزاں کے نیازمندوں نے
نوائے موسمِ گُل کا نشان بیچ دیا