Wednesday 3 July 2024

خود کہہ رہا ہے سورۂ الحمد کا نصاب

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت

الحمد


خود کہہ رہا ہے سورۂ الحمد کا نصاب 

آیات شش جہات کی تلخیص ہے یہ باب 

اس سورۂ محیطِ بیاں سے عیاں ہے یہ 

سات آیتیں ہیں اصل میں دیباچۂ کتاب 

ہر شے رواں ہیں ان کی روانی کے درمیاں 

قرآں کُھلا ہے سبعِ مثانی کے درمیاں 

الحمد دل کشا ہے لبِ حمد ذوالجلال 

شرحِ نکاتِ حمد میں کیا قال کیا مقال 

اک حرفِ حمد بوجھ جو ڈالے زمین پر 

قطبِ زمیں سے اپنا توازن بھی ہو محال 

پیدا ہو دم زدن میں یہ صورت بگاڑ کی 

اڑ جائیں خود زمین سے میخیں پہاڑ کی 

رحمان تا رحیم مباحث بھی ہیں ادق 

جن کا نچوڑ یہ ہے پئے دفترِ ورق

رحمانیت صفت ہے جو اک لطف عام کی 

وصفِ رحیمیت ہے مگر خاص لطف حق 

یہ دہر جو کمال ہے اس امتیاز کا 

کیا آئینہ ہے دیکھ نشیب و فراز کا 

یہ راہِ مستقیم صراطِ مکاشفات 

اور آدمی ہے کاشفِ منزل پئے صفات 

ہر لمحہ اک صدا ہے یَتَفَکّرُون کی

ہر دم مقامِ غور ہے خود آدمی کی ذات 

صنفِ خذف میں مثلِ زمرُّد ہے آدمی 

اک پرتوِ صفاتِ خدا خود ہے آدمی 

کرنا ہے طے سفر جو مفکِّر کی آنکھ سے

پڑھنا ہے حاشیوں کو مفسِّر کی آنکھ سے

وہ رُخ کہ فلسفے کا گزر تک جہاں نہ ہو

اُن سب کو دیکھنا بھی ہے شاعر کی آنکھ سے

قرطاس پر سمیٹ کے ہر خطِّ راہ کو 

جانا ہے ماوراۓ نگہ بھی نگاہ کو

گردش بدل رہی ہے افق بھی جو صبح و شام 

ہر پل ہے ارتقا کی مسافت کا اہتمام 

یوں بھی ملے گی قطرہ آبی کو ابرو 

ہوگی نمی کی بوند بھی سورج سے ہم کلام 

آئی نہیں ہے حیرتِ حکمت کی حد ابھی 

سائے کا وزن تول رہی ہے خرد ابھی 

الحمد روشنی کے سفینے عیاں ہوئے 

بے مدعا بھی دل کے دفینے عیاں ہوئے 

ہر جنبشِ مژہ پہ اترنے لگی کرن 

جو تھے پسِ خبر وہ خزینے عیاں ہوئے 

گردوں بھی گرد چشم تحیُّر کے سامنے 

سیّارے رک گئے ہیں تصوُّر کے سامنے


ہلال نقوی

No comments:

Post a Comment