مظلومیت تو دیکھیے قبریں نہیں ملیں
پانی کے دل میں اُتری جو لاشیں، نہیں ملیں
دیکھیں جو بے گھروں کی مصیبت کو چُپ رہیں
ایسی کسی شریف کی آنکھیں نہیں ملیں
بھائی کسی کے بہہ گئے دریائے ظلم میں
یا رب کہیں سے خیر کی خبریں نہیں ملیں
ریلا بہا کے لے گیا اُن کو، سکول سے
بچوں کو گھر میں آنے کی راہیں نہیں ملیں
کچھ بے زبان بچ گئے اور ڈھونڈنے لگے
لیکن گھروں کے ملبے سے مائیں نہیں ملیں
کرنے لگا بیان دلاور میں بے بسی
کوشش تو انتہا کی تھی لفظیں نہیں ملیں
دلاور حسین دلاور
No comments:
Post a Comment