جب جھوٹ راویوں کے قلم بولنے لگے
ہر خود سری کو جاہ و حشم بولنے لگے
اک اذن لب کشائی نے بے باک کر دیا
دیکھو کس اعتماد سے ہم بولنے لگے
کوئی کسی سے پوچھ رہا تھا ترا سراغ
اٹھ اٹھ کے میرے نقش قدم بولنے لگے
سمجھے تھے آستین چھپا لے گی سب گناہ
لیکن غضب ہوا کہ صنم بولنے لگے
حق گوئی کے محاذ پہ منظر بدل گیا
خاموش سب عرب ہیں عجم بولنے لگے
تنبیہ کی تھی دل کی دہن بھی سیے مگر
میں کیا کروں کہ دیدۂ نم بولنے لگے
ماحول بد گمان تھا تنگ آ کے تاج بھی
خاموش ہونے والے تھے کم بولنے لگے
حسین تاج رضوی
No comments:
Post a Comment