Monday 22 July 2024

کوئی کہتا ہے دھرم خلق میں کھویا اس نے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


کوئی کہتا ہے دھرم خلق میں کھویا اس نے

کوئی کہتا ہے کہ نام اپنا ڈبویا اس نے

کوئی جل بھُن کے حسد سے یہی کرتا ہے سخن

رام ایسا ہو کٹے اس کی زباں اس کا دہن

کم سنی میں تو یہ ہرگز بھی نہ تھا اس کا چلن

جب جواں ہونے کو آئی تو سیکھا ہے یہ فن

ہوش آیا ہے تو مد ہوشی کی یہ صورت ہے

دیوتا دیکھ کے کہتی ہے کہ یہ مُورت ہے

دل ادھر آیا ہے جب سے تو یہ حالت ہے ادھر

چلتے ہیں دل پہ بیگانوں کی زباں کے خنجر

اک مِری جان حزین اور یہ ستم آٹھ پہر

ایسے جینے سے تو واللہ ہے مرنا بہتر

ہو گئی عشق میں رُسوا نہ رہا عز و وقار

آفتیں ٹُوٹ پڑی ہیں دل مُضطر پہ ہزار

بُتوں کو چھوڑا تو فرزندِ بُوترابؑ ملا

جو گھر کو چھوڑا تو خُلدِ بریں کا باب ملا

کیا جو کایا پلٹ روپ نے بہ فضلِ رسولؐ

کنیزِ فاطمہ زہراؑ اسے خطاب ملا


دیوی روپ کماری

No comments:

Post a Comment