عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کوئی کہتا ہے دھرم خلق میں کھویا اس نے
کوئی کہتا ہے کہ نام اپنا ڈبویا اس نے
کوئی جل بھُن کے حسد سے یہی کرتا ہے سخن
رام ایسا ہو کٹے اس کی زباں اس کا دہن
کم سنی میں تو یہ ہرگز بھی نہ تھا اس کا چلن
جب جواں ہونے کو آئی تو سیکھا ہے یہ فن
ہوش آیا ہے تو مد ہوشی کی یہ صورت ہے
دیوتا دیکھ کے کہتی ہے کہ یہ مُورت ہے
دل ادھر آیا ہے جب سے تو یہ حالت ہے ادھر
چلتے ہیں دل پہ بیگانوں کی زباں کے خنجر
اک مِری جان حزین اور یہ ستم آٹھ پہر
ایسے جینے سے تو واللہ ہے مرنا بہتر
ہو گئی عشق میں رُسوا نہ رہا عز و وقار
آفتیں ٹُوٹ پڑی ہیں دل مُضطر پہ ہزار
بُتوں کو چھوڑا تو فرزندِ بُوترابؑ ملا
جو گھر کو چھوڑا تو خُلدِ بریں کا باب ملا
کیا جو کایا پلٹ روپ نے بہ فضلِ رسولؐ
کنیزِ فاطمہ زہراؑ اسے خطاب ملا
دیوی روپ کماری
No comments:
Post a Comment