کبھی نظر سے کبھی سلسلے سے نکلے ہیں
تمام زاویے ہر فلسفے سے نکلے ہیں
قدم قدم پہ نئے راز سامنے آئے
تِرے فراق میں جس راستے سے نکلے ہیں
مِرے خلاف جو سازش رچانے والے تھے
وہ سارے لوگ مرے قافلے سے نکلے ہیں
بہت ہی رویا ہوں اس وقت اپنی غربت پر
مِرے عزیز بھی جب فاصلے سے نکلے ہیں
جنون عشق بہت ہی سنبھالنا خود کو
تِری تلاش میں کچھ سر پھرے سے نکلے ہیں
خدا بچانا شریفوں کی خاکساری کو
غرور والے بڑے حوصلے سے نکلے ہیں
زمانے والے مجھے کیا ڈرائیں گے افضل
مِرے تو حوصلے ہی حادثے سے نکلے ہیں
افضل لہرپوری
No comments:
Post a Comment