Monday 22 July 2024

وہ اب خلل بھی بہت اس جہاں میں ڈالے گا

 وہ اب خلل بھی بہت اس جہاں میں ڈالے گا

زمیں کی وحشتیں اب آسماں میں ڈالے گا

سراغِ منزلِ جاناں مٹائے گا یوں ہی

وہ انتشار بہت کارواں میں ڈالے گا

نصیب ہونے نہ دے گا سکوں کی نیند کبھی

وہ تیز دھوپ بھی اب سائباں میں ڈالے گا

بجھا چکے گا وہ جب شعلۂ امید مِرا

ذرا سی آگ مِری خاک داں میں ڈالے گا

نظر جب آئے گی اس کو یہ میری ویرانی

تو کھلتے پھول مِرے گلستاں میں ڈالے گا

یقین ہے کہ سنوارے گا میری بھی ہستی

وہ لازوال ثمر آشیاں میں ڈالے گا


شبانہ عشرت

No comments:

Post a Comment