وہ اب خلل بھی بہت اس جہاں میں ڈالے گا
زمیں کی وحشتیں اب آسماں میں ڈالے گا
سراغِ منزلِ جاناں مٹائے گا یوں ہی
وہ انتشار بہت کارواں میں ڈالے گا
نصیب ہونے نہ دے گا سکوں کی نیند کبھی
وہ تیز دھوپ بھی اب سائباں میں ڈالے گا
بجھا چکے گا وہ جب شعلۂ امید مِرا
ذرا سی آگ مِری خاک داں میں ڈالے گا
نظر جب آئے گی اس کو یہ میری ویرانی
تو کھلتے پھول مِرے گلستاں میں ڈالے گا
یقین ہے کہ سنوارے گا میری بھی ہستی
وہ لازوال ثمر آشیاں میں ڈالے گا
شبانہ عشرت
No comments:
Post a Comment