Sunday, 28 July 2024

نت نئی شام الم شام غریباں لائی

 مرثیۂ شامِ غریباں معہ احوالِ کربلا


نت نئی شامِ الم، شامِ غریباں لائی

ہر طرف خیمۂ اقدس میں اداسی چھائی

غم پہ غم اور مصیبت پہ مصیبت آئی

دم بخود تھی شہِ بیکس کی بہن ماں جائی

دھنس پڑے خانۂ اطہر میں ستمگر ہے ہے

لوٹ کر لے گئے سب مقع و چادر ہے ہے


اک طرف لاشۂ عباسؑ دلاور ہے ہے

اک طرف خاک بسر لاشۂ اکبرؑ ہے ہے

چُور زخموں سے ہر اک کا تنِ بے سر ہے ہے

مُحبطِ ظلم و ستم دُختر حیدرؑ ہے ہے

مُہر تھی لب پہ لگی چھن گئی چادر سب کی

کس سے فریاد کرے کون سنے زینبؑ کی


بانوؑ کہتی تھیں کہ آؤ علیؑ اکبر آؤ

آؤ آؤ میرے پیارے، میرے دلبر آؤ

آؤ میدان سے عباسؑ دلاور آؤ

کیسی یہ نیند ہے، اے جانِ برادر آؤ

خیمے جلتے ہیں، نہیں آگ بُجھانے والا

کوئی باقی نہیں، اس سر کا چُھپانے والا


آؤ قاسمؑ! مِری آغوش کے پالے آؤ

جاگو اب خواب سے، اے گیسوؤں والے آؤ

کیسے یہ کوکھ جلی درد کو ٹالے آؤ

ہو گئے صبر کے لبریز پیالے آؤ

نہ تو موت آتی ہے پیارو! نہ تو تم آتے ہو

دے کے یہ دردِ جدائی مجھے تڑپاتے ہو


نقی احمد ارشاد


No comments:

Post a Comment