ہوا کو چیر کے اس تک صدا اگر پہنچے
محال ہے کہ مدد کو نہ چارہ گر پہنچے
دیار عشق کو راہ سِناں پہ چلتے ہوئے
جہاں پہ جسم نہ پہنچے وہاں پہ سر پہنچے
ٹھکانا دُور تھا، اور سامنا ہوا کا بھی
پہنچ نہ پائے پرندے سو ان کے پر پہنچے
ضعیف پیڑ نشانی تھا جو محبت کی
وہ کٹ چکا تھا مسافر جو لوٹ کر پہنچے
یہ ایک آہ محبت کی ترجمان نہیں
بہت طویل تھے قصے جو مختصر پہنچے
دُعا بدست پسِ در تھی انتظار میں ماں
ہم ایک شب ذرا تاخیر سے جو گھر پہنچے
پہنچ تو جاتی ہے ہر بات، بات کا کیا ہے
مزہ تو جب ہے کہ اس بات کا اثر پہنچے
قیس رضا
No comments:
Post a Comment