Wednesday, 31 July 2024

ہوا کو چیر کے اس تک صدا اگر پہنچے

 ہوا کو چیر کے اس تک صدا اگر پہنچے

محال ہے کہ مدد کو نہ چارہ گر پہنچے

دیار عشق کو راہ سِناں پہ چلتے ہوئے

جہاں پہ جسم نہ پہنچے وہاں پہ سر پہنچے

ٹھکانا دُور تھا، اور سامنا ہوا کا بھی

پہنچ نہ پائے پرندے سو ان کے پر پہنچے

ضعیف پیڑ نشانی تھا جو محبت کی

وہ کٹ چکا تھا مسافر جو لوٹ کر پہنچے

یہ ایک آہ محبت کی ترجمان نہیں

بہت طویل تھے قصے جو مختصر پہنچے

دُعا بدست پسِ در تھی انتظار میں ماں

ہم ایک شب ذرا تاخیر سے جو گھر پہنچے

پہنچ تو جاتی ہے ہر بات، بات کا کیا ہے

مزہ تو جب ہے کہ اس بات کا اثر پہنچے


قیس رضا

No comments:

Post a Comment