Tuesday, 23 July 2024

اتنا خوشرنگ کہ خوابوں کا نگر لگتا ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


اتنا خوشرنگ کہ خوابوں کا نگر لگتا ہے

گنبدِ سبز سے یہ شہر گُہر لگتا ہے

پاؤں آقاؐ نے اِنہی گلیوں میں رکھے ہوں گے

پاؤں رکھتے ہُوئے ایمان سے ڈر لگتا ہے

پلکیں جھاڑُو کے تصور سے دمک اُٹھتی ہیں

راستہ آپﷺ کی گر راہ گُزر لگتا ہے

ہجر میں آپﷺ کے نمناک فقط آنکھ نہیں

خُون سے سینے میں اِک ٹکڑا بھی تر لگتا ہے

سنگ دل شخص پہ قرآن مؤثر کیوں ہے؟

سنگ ریزوں کی تلاوت کا اثر لگتا ہے

چھوڑ کر گردشی تسبیح ہُوا ہے دو نیم

عارف قصۂ معراج، قمر لگتا ہے

جو محمدؐ کا نہیں، دُنیا کو وہ جو بھی لگے

اہلِ کردار کو وہ صرف صِفر لگتا ہے

ہم بھی پردیس میں مر جانے سے ڈرتے ہیں حضورؐ

پر مدینے میں کسے موت سے ڈر لگتا ہے

معذرت اہلِ مدینہ یہ جسارت ہے مگر

ایک ہستی کے طفیل اپنا ہی گھر لگتا ہے

طاعتِ احمدِ مُرسلﷺ کا شجر دل میں لگا

اِس پہ جنت کی بشارت کا ثمر لگتا ہے

ناز ہو جس کو محمدﷺ کی غلامی پر قیس

آنکھ والوں کو وہی اہلِ نظر لگتا ہے


شہزاد قیس

No comments:

Post a Comment