Sunday 28 July 2024

مت پوچھ مسیحا کہ میں کیا ڈھونڈ رہی ہوں

 مت پوچھ مسیحا کہ میں کیا ڈھونڈ رہی ہوں

اک درد مسلسل کی دوا ڈھونڈ رہی ہوں

بے ساختہ جو کھول دے اس دل کے دریچے

مانوس سی وہ ایک سدا ڈھونڈ رہی ہوں

 سوئے ہوئے دل کے جو احساس جگا دے

اقبال کا وہ بانگ درا ڈھونڈ رہی ہوں

اے جان تمنا! تِرے دامن سے لپٹ کر

بہتے ہوئے اشکوں کا صِلہ ڈھونڈ رہی ہوں

کٹ جائیں کسی طور غمِ ہجر کی راتیں

 فُرقت ہے مگر وصل تِرا ڈھونڈ رہی ہوں

نکلے نہ کوئی نُور چراغوں کے بدن سے

میں تیز ہواؤں کی رِدا ڈھونڈ رہی ہوں


نیلوفر نور

No comments:

Post a Comment