Sunday 28 July 2024

جھلسا رہی تھی جب ہمیں اپنی خطا کی دھوپ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


جھلسا رہی تھی جب ہمیں اپنی خطا کی دھوپ

ایسے میں ابر بن گئی صلے علٰی کی دھوپ

لے جاتی کفر تک ہمیں یہ مفلسی کی دھند

ہوتی نہ گر حضورؐ کے جود و سخا کی دھوپ

🌻فہمِ بشر کو سائباں،۔ اُمّی کا انکسار🌻

ورنہ اسے جلاتی تھی کبر و انا کی دھوپ

اک ابرِ بے وفائی نے ہر سمت شام کی

روشن جہاں کو کر گئی اہلِ وفا کی دھوپ

معنی طہارتوں کے چمکنے لگے تمام

اہلِ کسا نے بانٹ دی یوں انما کی دھوپ

☾بدرالدجیٰ کی چاندنی،۔ راتوں کی زندگی☽

سانسیں دنوں کو بخشے ہے شمس الضحیٰ کی دھوپ

تسنیم ہوں گے ابرِ شفاعت کی چھاؤں میں

ہم تک پہنچ نہ پائے گی روزِ جزا کی دھوپ


تسنیم عباس قریشی

No comments:

Post a Comment