ہیں وقت کے محکوم تو بہکیں گے قدم اور
بدلے ہوئے حالات میں کھو جائیں گے ہم اور
افسانۂ اندوہ میں یکساں ہے ہر اک شخص
اس دور پُر آشوب میں تم اور نہ ہم اور
لے جاتے ہیں بتخانے سے دل اپنا جلا کر
رکھ لیں گے نئی شمع سر طاق حرم اور
ہر شخص تھا خاموش مِرے بعد ازل میں
پوچھا جو گیا ہے کوئی شائستہ غم اور
سانچے میں مسرت کے ڈھلا ہے غم الفت
اے گردش آفاق مجھے دے کوئی غم اور
اول تو بچھڑتے ہی چلے جاتے ہیں ساتھی
پڑتا ہے برا وقت تو ہو جاتے ہیں کم اور
حالات موافق نظر آتے نہیں قیصر
ہیں ترکش ایام میں کچھ تیر ستم اور
قیصر حیدری دہلوی
No comments:
Post a Comment