Sunday 28 July 2024

ہیں وقت کے محکوم تو بہکیں گے قدم اور

 ہیں وقت کے محکوم تو بہکیں گے قدم اور

بدلے ہوئے حالات میں کھو جائیں گے ہم اور

افسانۂ اندوہ میں یکساں ہے ہر اک شخص

اس دور پُر آشوب میں تم اور نہ ہم اور

لے جاتے ہیں بتخانے سے دل اپنا جلا کر

رکھ لیں گے نئی شمع سر طاق حرم اور

ہر شخص تھا خاموش مِرے بعد ازل میں

پوچھا جو گیا ہے کوئی شائستہ غم اور

سانچے میں مسرت کے ڈھلا ہے غم الفت

اے گردش آفاق مجھے دے کوئی غم اور

اول تو بچھڑتے ہی چلے جاتے ہیں ساتھی

پڑتا ہے برا وقت تو ہو جاتے ہیں کم اور

حالات موافق نظر آتے نہیں قیصر

ہیں ترکش ایام میں کچھ تیر ستم اور


قیصر حیدری دہلوی

No comments:

Post a Comment