پتھروں کے راستے پر کہکشاں ہے زندگی
کچھ دِنوں سے میرے اوپر مہرباں ہے زندگی
اِس سے قربت کی تمنا نے ہمیں جھلسا دیا
آتشِ نمرود سے اٹھتا دھواں ہے زندگی
اِس تنفس کے سفر میں راہزن ملتے نہیں
رہبروں سے لٹنے والا کارواں ہے زندگی
داغِ تہمت اِس کے دامن سے کبھی جاتا نہیں
ایک مُفلس کی مکمل داستاں ہے زندگی
کیا خبر کب کون اِس کو کھینچ لے اپنی طرف
مومنوں اور کافروں کے درمیاں ہے زندگی
خواہشوں کو دام پر رکھے ہوئے بازار میں
نامور سی اِک طوائف کی دُکاں ہے زندگی
شیخ صاحب کی تمازت سے ہوا معلوم یہ
مے کدے سے گوجنے والی اذاں ہے زندگی
ہر کسی سے فاصلے بڑھتے گئے شہزاد کے
فرقہ آرائی خطیبوں کی زباں ہے زندگی
شہزاد صابر
No comments:
Post a Comment