Monday 29 July 2024

تیری بے رخی مری موت تھی ہوا التفات کبھی کبھی

 تیری بے رُخی مِری موت تھی ہُوا التفات کبھی کبھی

تِرے التفات کی خیر ہو کہ مِلی حیات کبھی کبھی

رہ آرزو میں کہیں کہیں مجھے روک دیتے ہیں حادثے

غمِ عشق ہے مِرا مستقل غمِ کائنات کبھی کبھی

مِری جُنبش لب غمزدہ جو تِرے مزاج پہ بار ہے

مِرے آنسوؤں کی زباں سے سن غم دل کی بات کبھی کبھی

نہیں ایک حال میں کچھ مزہ کرو چاشنی بھی مجھے عطا

مِری زندگی کے سکوت میں نئی واردات کبھی کبھی

وہ جہاں کہیں نظر آ گئے بڑا اتفاق حسیں رہا

مجھے تیرگی تھی نصیب میں مِلی چاند رات کبھی کبھی

میں زمیں نورد تھا عشق میں مگر ایسے موڑ بھی آ گئے

مہ و مہر تک مجھے لے گیا سفرِ حیات کبھی کبھی

تِرا قیصر امن و سکوں میں بھی نہ بچا فریبِ جمال سے

تِری اک نگاہ سے کُھل گیا درِ حادثات کبھی کبھی


قیصر حیدری دہلوی

No comments:

Post a Comment