آدمی کو درد کا سارا علاقہ لکھ دیا
ہاتھ میں اس کے قلم تھا جو بھی چاہا لکھ دیا
نصرتیں چاہو تو اپنے آپ سے ہجرت کرو
کاتبِ قسمت نے مکے کو مدینہ لکھ دیا
بتکدوں کو شوخیاں دیں مسجدوں کو حوصلے
اور پیشانی پے میری اپنا سجدہ لکھ دیا
حسن کی آنکھوں میں بھردیں وادیاں کشمیر کی
عشق کی شوریدگی کے نام صحرا لکھ دیا
جب سخن کا ذوق بڑھتے بڑھتے سودا ہو گیا
ایک سادہ رخ پہ میں نے بھی قصیدہ لکھ دیا
عشق کی تشریح میں دونوں جہاں جب کھو گئے
میں نے اپنا نام کاٹا اور اس کا لکھ دیا
آخرِ شب دل پہ اُتری درد کی سچّی کتاب
اور بیاض صبح پر اشکوں نے طیبہ لکھ دیا
صحرا صحرا پیاس کے دستِ ہنر نے اے رئیس
سوکھے ہونٹوں کا تبسم دریا دریا لکھ دیا
رئیس الشاکری
No comments:
Post a Comment