Friday, 26 July 2024

ہمیں سے جستجوئے دوست کی ٹھانی نہیں جاتی

 ہمیں سے جستجوئے دوست کی ٹھانی نہیں جاتی

تن آسانی بری شے ہے، تن آسانی نہیں جاتی

ہمیشہ دامن اشکِ خوں سے لالہ زار رہتا ہے

یہ فطرت کے تبسم کی گل افشانی نہیں جاتی

نظامِ دہر اگر میرے لیے بدلا تو کیا بدلا

کسی گھر سے بھی شامِ غم بآسانی نہیں جاتی

جنوں میں ہوش کیا جاں بھی بسا اوقات جاتی ہے

نہیں جاتی تو طرزِ چاک دامانی نہیں جاتی

سنا ہے شوخ جلوے بھی تحیر خیز ہوتے ہیں

گزر جاتی ہے ساری عمر حیرانی نہیں جاتی

میں خود اپنی محبت میں کمی محسوس کرتا ہوں

مری صورت سے دل کی بات پہچانی نہیں جاتی

چمن والوں سے مجھ صحرا نشیں کی بود و باش اچھی

بہار آ کر چلی جاتی ہے ویرانی نہیں جاتی

ابھی ماحول عرفان و ہنر میں پست ہے حیدر

یکایک ہر بلند آواز پہچانی نہیں جاتی


حیدر دہلوی

No comments:

Post a Comment