عجیب حال میں اپنی حیات رہتی ہے
میں اُس سے جیت بھی جاؤں تو مات رہتی ہے
وہ مجھ سے پیار بھی کرتی ہے یا نہیں کرتی
وہ میرے ساتھ ہو پھر بھی یہ بات رہتی ہے
جو دل کی ساری تمنا کی شمعیں بجھ جائیں
تو شمس آئے قمر اپنی رات رہتی ہے
مِرے حضور یہ زینت ہیں باغ کی لیکن
انہی کو دیکھ کے الفت حیات رہتی ہے
یوں گفتگو تو ہماری بھی اُن سے ہوتی ہے
مگر جو بات ضروری وہ بات رہتی ہے
جو میرے دل میں نہیں ہے وہ اس ورق پہ نہیں
وگرنہ ساتھ قلم کے دوات رہتی ہے
یہ معرکہ ہے محبت کا، ضبط کا اکبر
سو دیکھتے ہیں کہ کب تک بسات رہتی ہے
اکبر جلال
No comments:
Post a Comment