Thursday 18 July 2024

ریزگاری کی طرح کام میں لاتا ہے مجھے

 ریزگاری کی طرح کام میں لاتا ہے مجھے

خرچ کرتا ہے مجھے روز کماتا ہے مجھے

میں بھی چپ چاپ نئی شکل میں ڈھل جاتا ہوں

اپنے انداز سے ہر شخص بناتا ہے مجھے

بین کرتا ہے مِری آنکھ سے ٹوٹا ہوا خواب

خود ہی روتا ہے وہ روز رُلاتا ہے مجھے

طاقِ نسیاں میں پڑا ہوں تو پڑا رہنے دے

یار بیکار میں کیوں ڈھونڈ کے لاتا ہے مجھے

ختم ہوتا ہے نہیں پُتلی تماشا تیرا

تھک کے گرتا ہوں، اٹھاتا ہے، نچاتا ہے مجھے

کر ہی لیتا ہوں میں اظہارِ تمنا صاحب

ٹھیک ہے آپ کے جیسا نہیں آتا ہے مجھے

گُن کوئی مجھ میں نہیں اور سلیقہ ناپید

میرا مولا کا کرم بھاگ لگاتا ہے مجھے


شہاب عالم قریشی

No comments:

Post a Comment