ریزگاری کی طرح کام میں لاتا ہے مجھے
خرچ کرتا ہے مجھے روز کماتا ہے مجھے
میں بھی چپ چاپ نئی شکل میں ڈھل جاتا ہوں
اپنے انداز سے ہر شخص بناتا ہے مجھے
بین کرتا ہے مِری آنکھ سے ٹوٹا ہوا خواب
خود ہی روتا ہے وہ روز رُلاتا ہے مجھے
طاقِ نسیاں میں پڑا ہوں تو پڑا رہنے دے
یار بیکار میں کیوں ڈھونڈ کے لاتا ہے مجھے
ختم ہوتا ہے نہیں پُتلی تماشا تیرا
تھک کے گرتا ہوں، اٹھاتا ہے، نچاتا ہے مجھے
کر ہی لیتا ہوں میں اظہارِ تمنا صاحب
ٹھیک ہے آپ کے جیسا نہیں آتا ہے مجھے
گُن کوئی مجھ میں نہیں اور سلیقہ ناپید
میرا مولا کا کرم بھاگ لگاتا ہے مجھے
شہاب عالم قریشی
No comments:
Post a Comment