Saturday, 20 July 2024

رہنما سے کارواں کا رابطہ ہی کیا رہا

 رہنما سے کارواں کا رابطہ ہی کیا رہا

کارواں سے دور ہے تو رہنما ہی کیا رہا

آدمی کا آدمی سے واسطہ ہی کیا رہا

خود ہی سوچو زندگی کا فلسفہ ہی کیا رہا

رہبران قوم کے جذبات ہی جاتے رہے

منزل مقصود کا اب راستہ ہی کیا رہا

صاف گوئی کا ہنر ہی اب کہاں موجود ہے

داغ جس میں آ گئے وہ آئینہ ہی کیا رہا

جن کے چہرے کھل گئے مجھ کو پریشاں دیکھ کر

ان سے میری چاہتوں کا سلسلہ ہی کیا رہا

درگزر جب کر دئیے اہل ستم کے بھی ستم

پھر کسی کی بد مزاجی کا گلہ ہی کیا رہا

مسئلے تو سب کے سب موجود ہیں افضل میاں

آنے جانے سے مِرے پھر فائدہ ہی کیا رہا


افضل لہرپوری

No comments:

Post a Comment