رہنما سے کارواں کا رابطہ ہی کیا رہا
کارواں سے دور ہے تو رہنما ہی کیا رہا
آدمی کا آدمی سے واسطہ ہی کیا رہا
خود ہی سوچو زندگی کا فلسفہ ہی کیا رہا
رہبران قوم کے جذبات ہی جاتے رہے
منزل مقصود کا اب راستہ ہی کیا رہا
صاف گوئی کا ہنر ہی اب کہاں موجود ہے
داغ جس میں آ گئے وہ آئینہ ہی کیا رہا
جن کے چہرے کھل گئے مجھ کو پریشاں دیکھ کر
ان سے میری چاہتوں کا سلسلہ ہی کیا رہا
درگزر جب کر دئیے اہل ستم کے بھی ستم
پھر کسی کی بد مزاجی کا گلہ ہی کیا رہا
مسئلے تو سب کے سب موجود ہیں افضل میاں
آنے جانے سے مِرے پھر فائدہ ہی کیا رہا
افضل لہرپوری
No comments:
Post a Comment