Saturday 20 July 2024

پلکوں پہ رکا قطرۂ‌ مضطر کی طرح ہوں

 پلکوں پہ رُکا قطرۂ‌ مُضطر کی طرح ہوں

باہر سے بھی بے چین میں اندر کی طرح ہوں

باہر سے مِرے جسم کی دیوار کھڑی ہے

اندر سے میں اک ٹُوٹے ہوئے گھر کی طرح ہوں

نظروں سے گِرا دو کہ مجھے دیوتا مانو

پتھر کے تراشے ہوئے پیکر کی طرح ہوں

چھائی ہیں مِرے سر پہ سیہ پوش گھٹائیں

میں صبح میں بھی شام کے منظر کی طرح ہوں

اندر کی چٹانوں سے نہ ٹکرا کے بکھر جاؤں

میں بپھرا ہوا خُود پہ سمندر کی طرح ہوں

تم جلوہ نما ہو تو کُھلی ہیں مِری آنکھیں

آ لپٹو بدن سے تو میں چادر کی طرح ہوں

رہتا ہے کہیں جسم بھٹکتی ہے کہیں روح

گھر میں ہوں مگر آج میں بے گھر کی طرح ہوں

اقدار کی اُٹھتی ہوئی دیوار میں چُن لو

رستے میں پڑا میں کسی پتھر کی طرح ہوں


یٰسین افضال

No comments:

Post a Comment