Thursday 18 July 2024

شہر بھر میں مجھے ایسے نہ گھمایا جاتا

 شہر بھر میں مجھے ایسے نہ گُھمایا جاتا

اس محبت کو تماشا نہ بنایا جاتا

میں کہ جس چاک پہ ٹُوٹا تھا تِرے ہاتھوں سے

کاش اس چاک پہ اب پھر سے بنایا جاتا

یاد رکھنے کی اذیت سے گُزرنے کے لیے

بھُولنے کا بھی ہُنر مجھ کو سکھایا جاتا

دُھوپ ہوتی تو مجھے اتنی سہولت رہتی

میں نہ جاتا بھی تو اس تک مِرا سایا جاتا

اک نئے زخم کی ہے دل کو ضرورت عدنان

اب پرانے سے نہیں کام چلایا جاتا


عدنان منور

No comments:

Post a Comment