Monday 29 July 2024

دل بے تاب تو ہے کس لیے نم دیدہ نم دیدہ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


دلِ بے تاب تُو ہے کس لیے نم دیدہ نم دیدہ

وہ پردہ پوش ہیں ان کا کرم پوشیدہ پوشیدہ

یہ ممکن ہے نقابِ حسن کے پردے سرک جائیں

نگاہیں عشق کا ہے دیکھنا دزدیدہ دزدیدہ

تو وہ ہے شمعِ توحید جس کے حسن کے اوپر

جسے دیکھا وہ ہے پروانۂ نادیدہ نادیدہ

ہمیں پر ہی نہیں موقوف دعویٰ عشق کا کرنا

خدا خود کملی والے کا ہوا گرویدہ گرویدہ

شبِ معراج حق نے یوں کہا سب بخش دی امت

میرے محبوب تُو ہے، کس لیے رنجیدہ رنجیدہ

اے واعظ! تُو نہ کر کوشش سمجھ میں آ نہیں سکتا

یہ نکتہ عشق کا ہے کچھ عجب پیچیدہ پیچیدہ

امیر صابری جانا سنبھل کر کوئے جاناں میں

وہاں پر ہر قدم پر ہر قدم لرزیدہ لرزیدہ


امیر بخش صابری

No comments:

Post a Comment