Friday 26 July 2024

کر کے دشوار یوں ہر ایک قدم کاہے کو

 کر کے دُشوار یوں ہر ایک قدم کاہے کو

ہم لیے پھرتے رہے بارِ حشم کاہے کو

اشک سب اپنی روانی میں بہا لے جاتے

خواب ہم دیکھتے با دِیدۂ نم  کاہے کو

غم کی تاثیر میں تخفیف کیا کرتے ہیں

کر کے نادان تماشائے الم کاہے کو

قید اک خاک کے پُتلے میں ہے اور نازاں ہے

اس قدر رُوح کرے خود پہ ستم کاہے کو

زعم خود پر ہو تو اس بات سے عبرت لیجو

نیست و نابود ہوا باغِ اِرم کاہے کو

ہو گئیں اب تو اندھیروں سے شناسا آنکھیں

اب بھلا ان پہ اجالوں کا کرم کاہے کو

وہ تو پت جھڑ کا تھا موسم اسے جانا ہی تھا

کر دئیے سارے شجر تم نے قلم کاہے کو

دوڑ ہم جیت گئے، اب کہو کیا کہتے ہو

اپنی اوقات میں رہتے نہیں ہم کاہے کو


مسکان ریاض

No comments:

Post a Comment