Saturday, 27 July 2024

شعر کہنے سے مسائل تو نہیں حل ہوتے

 پیراہن چاک و آوارۂ جنگل ہوتے

ہم جو رو پاتے نہیں کُھل کے تو پاگل ہوتے

تیرے ہاتھوں کو جو تھاما تو نئی روح ملی

ورنہ یہ طے تھا کہ خود ہاتھ مرے شَل ہوتے

آنکھیں ماتھے پہ وہ رکھتے ہیں ہمیں دیکھیں تو 

کل جو آنکھوں پہ بٹھانے کو تھے بے کل ہوتے

کیا میں لگتا ہوں کہ وہ میری کہانی سنتے

وقت ہی کب تھا جو بے چین وہ ہرپل ہوتے

فاصلہ رکھ کے ملو گے تو بڑھے گی عزت

یاریوں میں نہیں جذبے بھی مسلسل ہوتے 

مرجعِ عشق ہوں تقلید کروں کیوں اُس کی 

جس امر بیل کے دامن میں نہیں پھل ہوتے

یہ الگ بات ادھورے بھی بہت جچتے ہیں 

یہ الگ شوق کہ ہم  کاش مکمل ہوتے

شہر میں اب زرا اردو کی دکاں کھول سحاب 

شعر کہنے سے مسائل تو نہیں حل ہوتے


عارف سحاب

No comments:

Post a Comment