Saturday 27 July 2024

فضول کاموں میں کس سلیقے سے زندگانی نکالتے تھے

 فضول کاموں میں کس سلیقے سے زندگانی نکالتے تھے

کہ اس کے اک ایک لفظ کے ہم ہزار معنی نکالتے تھے

ندیم، حیرت یے ایڑیوں کو رگڑ کے انساں نہ تم سے پگھلا

اور ان کو دیکھو جو ایڑیوں کو رگڑ کے پانی نکالتے تھے

جب اس کی راتوں میں نیند اڑتی تو وہ اداسی میں کال کرتی

پھر اپنی جھولی کھنگال کر ہم نئی کہانی نکالتے تھے

ہمارے بارے میں کچھ برائی وہ جب بھی سنتی تو رونے لگتی

پھر اس کے ماتھے کو چوم کر ہم وہ بدگمانی نکالتے تھے

وہ اتنی بھولی تھی اپنے غصے کو صرف رو کر نکالتی تھی

ہم اتنے سادہ تھے اس کی تلخی سے خوش بیانی نکالتے تھے


ندیم ظہیر

No comments:

Post a Comment