فضول کاموں میں کس سلیقے سے زندگانی نکالتے تھے
کہ اس کے اک ایک لفظ کے ہم ہزار معنی نکالتے تھے
ندیم، حیرت یے ایڑیوں کو رگڑ کے انساں نہ تم سے پگھلا
اور ان کو دیکھو جو ایڑیوں کو رگڑ کے پانی نکالتے تھے
جب اس کی راتوں میں نیند اڑتی تو وہ اداسی میں کال کرتی
پھر اپنی جھولی کھنگال کر ہم نئی کہانی نکالتے تھے
ہمارے بارے میں کچھ برائی وہ جب بھی سنتی تو رونے لگتی
پھر اس کے ماتھے کو چوم کر ہم وہ بدگمانی نکالتے تھے
وہ اتنی بھولی تھی اپنے غصے کو صرف رو کر نکالتی تھی
ہم اتنے سادہ تھے اس کی تلخی سے خوش بیانی نکالتے تھے
ندیم ظہیر
No comments:
Post a Comment