Wednesday, 31 July 2024

جیون کا یہ کھیل تماشا یوں ہی چلتا رہتا ہے

 جیون کا یہ کھیل تماشا یوں ہی چلتا رہتا ہے 

دن پھرتے ہیں لوگوں میں اور وقت بدلتا رہتا ہے 

یاروں سے ہم وقت بلا میں آنکھیں پھیر تو لیتے ہیں 

لیکن اک انجانا سا دُکھ دل میں پلتا رہتا ہے 

نظریں خیرہ کر دیتی ہے ایک جھلک لیلاؤں کی 

اور پھر انساں پورا جیون آنکھیں ملتا رہتا ہے 

مفت کا روگ نہ پالو دل میں جی کو مت ہلکان کرو 

دنیا کا ہر چڑھتا سُورج آخر ڈھلتا رہتا ہے 

ہجر کی آندھی ایسی آئی سب کچھ لے کر ساتھ گئی 

پھر بھی دل میں آس کا دیپک بُجھتا جلتا رہتا ہے 

لوگ چُھپائے پھرتے ہیں پتھر کی سلوں کو سینوں میں 

ایک ہمارا دل بے چارہ آگ اگلتا رہتا ہے 


آفتاب احمد شاہ

No comments:

Post a Comment