جیون کا یہ کھیل تماشا یوں ہی چلتا رہتا ہے
دن پھرتے ہیں لوگوں میں اور وقت بدلتا رہتا ہے
یاروں سے ہم وقت بلا میں آنکھیں پھیر تو لیتے ہیں
لیکن اک انجانا سا دُکھ دل میں پلتا رہتا ہے
نظریں خیرہ کر دیتی ہے ایک جھلک لیلاؤں کی
اور پھر انساں پورا جیون آنکھیں ملتا رہتا ہے
مفت کا روگ نہ پالو دل میں جی کو مت ہلکان کرو
دنیا کا ہر چڑھتا سُورج آخر ڈھلتا رہتا ہے
ہجر کی آندھی ایسی آئی سب کچھ لے کر ساتھ گئی
پھر بھی دل میں آس کا دیپک بُجھتا جلتا رہتا ہے
لوگ چُھپائے پھرتے ہیں پتھر کی سلوں کو سینوں میں
ایک ہمارا دل بے چارہ آگ اگلتا رہتا ہے
آفتاب احمد شاہ
No comments:
Post a Comment