عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جہانِ جبر کی حالت سمجھ میں آنے لگی
سو کربلا کی ضرورت سمجھ میں آنے لگی
یزید! تُو بھی نئے شمر پرورش کر لے
ادھر ہمیں بھی شہادت سمجھ میں آنے لگی
اِدھر حسینؑ نے سجدہ میں سر جُھکایا، اُدھر
مباہلہ کی حقیقت سمجھ میں آنے لگی
بوقتِ عصر وہ سجدہ عجیب سجدہ تھا
پھر اس کے بعد عبادت سمجھ میں آنے لگی
اسیر و ناتواں عابدؑ کا سُوئے شامِ سفر
زمانے تجھ کو امامت سمجھ میں آنے لگی
اُحد ہو کربلا حمزہؑ ہوں یا علی اکبرؑ
جگر کی جسم سے نسبت سمجھ میں آنے لگی
جو مضرب علی اصغرؑ ہوئے تو سرورؑ کو
وہ بے زبان وضاحت سمجھ میں آنے لگی
اٹھے حسینؑ کے لشکر کی سمت حُرؑ کے قدم
تو ایک رات کی مہلت سمجھ میں آنے لگی
شکیل جعفری
No comments:
Post a Comment