Friday 26 July 2024

پھر ہجوم ہوس اور عالم تنہائی ہے

 پھر ہجوم ہوس اور عالم تنہائی ہے

پھر وہی سلسلۂ انجمن آرائی ہے

رحم کر اے ہوس لذت آزار نہ چھیڑ

دل بیمار نے مر مر کے شفا پائی ہے

داد لیں کس سے تری دید کی اے حسن نگار

خود تماشا ترے جلوہ کا تماشائی ہے

دیکھ تو چل کے شہیدانِ وفا کا عالم

خون زخموں سے نکلتا ہے بہار آئی ہے

پھر وہی دست و گریبان ہیں وہی جوش جنوں

پھر وہی یاد وہی بادیہ پیمائی ہے

خود مری صبح سنا دے گی انہیں حال مرا

مرا خاموش ہی رہنا مری گویائی ہے

دل پسند نگہ ناز بتاں ہے توفیق

عین بتخانے میں کعبہ نے جگہ پائی ہے


توفیق حیدرآبادی

No comments:

Post a Comment