پھر ہجوم ہوس اور عالم تنہائی ہے
پھر وہی سلسلۂ انجمن آرائی ہے
رحم کر اے ہوس لذت آزار نہ چھیڑ
دل بیمار نے مر مر کے شفا پائی ہے
داد لیں کس سے تری دید کی اے حسن نگار
خود تماشا ترے جلوہ کا تماشائی ہے
دیکھ تو چل کے شہیدانِ وفا کا عالم
خون زخموں سے نکلتا ہے بہار آئی ہے
پھر وہی دست و گریبان ہیں وہی جوش جنوں
پھر وہی یاد وہی بادیہ پیمائی ہے
خود مری صبح سنا دے گی انہیں حال مرا
مرا خاموش ہی رہنا مری گویائی ہے
دل پسند نگہ ناز بتاں ہے توفیق
عین بتخانے میں کعبہ نے جگہ پائی ہے
توفیق حیدرآبادی
No comments:
Post a Comment