ملا ہے اذن در پردہ تماشا جاری رکھنا ہے
سو اب کے ہم کو دانستہ تماشا جاری رکھنا ہے
یہ دل تھک ہار بیٹھا ہے مگر آنکھوں کی ضد ہے یہ
کہ جب تک خواب ہیں زندہ تماشا جاری رکھنا ہے
ہمارے شہر کی ہر شام ہے شام غریباں سی
عزا دارو کرو وعدہ تماشا جاری رکھنا ہے
زمیں ساکن قمر بے نور تارے خاک ہو جائیں
بدل جائے سبھی نقشہ تماشا جاری رکھنا ہے
کسی درویش نے اظہر کہا ہے خواب میں مجھ کو
تمہیں ہر حال میں بچہ تماشا جاری رکھنا ہے
اظہر عروج
No comments:
Post a Comment