Monday 29 July 2024

یہاں تلک تو جبیں رسوا کو سجدے اک در کے کام آئے

 یہاں تلک تو جبیں رُسوا کو سجدے اک در کے کام آئے

کیا جو رُخ میں نے سُوئے کعبہ تو بُت گروں سے سلام آئے

ہنسا نگاہوں میں باغ جنّت پہ دم میں نکلا سراب ہستی

طلب کے رستہ میں طالبوں کو بہت سے ایسے مقام آئے

ہو جس کو آنا، وہ آپ آئے، ہو جس کو جانا وہ آپ جائے

اب اپنی آنکھوں میں سب برابر وہ صبح ہو یا کہ شام آئے

ملا نہ آبِ حیات ہم کو، عبث رہا سر پہ خُم کا احساں

گئے تھے ساقی کے در پہ پیاسے، وہاں سے بھی تشنہ کام کے

بُرا ہو اے لذت اسیری! قصُور کیا زُلفِ خم بہ خم کا

جنہیں تن آسانیوں نے گھیرا، تڑپ کے خود زیرِ دام آئے

پہونچ کے بھی تیرے گھر میں تیری، طلب رہی ذوقِ جستجو کو

تُجھی کو گھبرا کے ہم پُکارے، حرم میں ایسے مقام آئے

نظر میں ان کی فُرات کیا ہے، پئے ہوں جو معرفت کے ساغر

نہ منہ لگائیں گے مرتے دم تک، جو بھر کے امرت کا جام آئے

ہزار نفریں اگر جُھکی ہو، جبیں کسی اور در پہ اپنی

کوئی تو سجدہ اس آستاں کا، ہمارے ارشاد کام آئے


نقی احمد ارشاد

No comments:

Post a Comment