Tuesday 23 July 2024

مٹ نہ جائیں سراب دوری کے

 مِٹ نہ جائیں سراب دوری کے

نقش دیکھا کریں گے پانی کے

ہم سروں پر اُٹھائے پھرتے ہیں

سب در و بام اُس حویلی کے

آخری موڑ تھا شکیبائی

ترجماں سو گئے کہانی کے

جنبشِ لب کہیں نہیں، لیکن

بولتے ہیں مزار مٹی کے

ابھی مٹی جبیں سے دھوئی نہ تھی

گُل مہکنے لگے کیاری کے

بیٹھ کر سوچنے لگا میں بھی

میز پر تھے نشان کُہنی کے

کیا ہَوا کو خبر نہیں، فرحان

بُجھ رہے ہیں چراغ بستی کے


فرحان کبیر

No comments:

Post a Comment