زندگی شاہ کی چوکھٹ پہ کیوں واری جائے
تخت سے نعش کیوں نہ اب یہ اُتاری جائے
ظُلم کو ہم نے بہت دیر تلک جھیلا ہے
اب کہ لازم ہے کیا جان بھی ہاری جائے
قوم کو ظُلم سے جھٹکارا دلانا ہو گا
دیکھنا رائیگاں محنت نہ ہماری جائے
بھُوک افلاس نے بچوں کو رُلا رکھا ہے
آج کے دن مِری مزدوری نہ ماری جائے
تخت زادوں نے یہ حلف اُٹھا رکھا ہے
قوم اب سُوئی کے نکّے سے گزاری جائے
خلعت ملی تھی اسے میری مُخبری کے لیے
مرتے دم تک نی مِری زخم شماری جائے
افضل ضیائی
No comments:
Post a Comment