Monday 29 July 2024

مجھے بہشت سے مطلب نہ خلد سے ہے غرض

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


مجھے بہشت سے مطلب نہ خلد سے ہے غرض

مِرا جگر تو مدینے کے ہجر میں ہے فگار

کہاں کا باغ، کہاں کا چمن، کہاں کی سیر

مِری نظر میں تو ہر دم مدینہ کی ہے بہار

وہاں کے خار ہیں حوروں کی گردنوں کے ہار

ہیں آٹھوں باغوں میں فردوس کے وہیں کی بَہار

ہماری آنکھوں کی ہے روشنی وہیں کا سواد

ہماری آنکھوں میں پھرتے ہیں اس کے لیل و نہار

ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک وہاں کا نورِ سحر

ہمارا کحلِ جواہر ہے اس زمیں کو غبار

وہیں سے حکمِ قضا و قدر نکلتے ہیں

ہے عرش و فرش میں ممتاز ایک یہی سرکار


شاہ اکبر داناپوری

No comments:

Post a Comment