Monday, 22 July 2024

صد رنگ ترے جبر کی لذت ہی الگ ہے

 صد رنگ ترے جبر کی لذت ہی الگ ہے

گزری ہے جو دل پر وہ قیامت ہی الگ ہے

لے جائے جہاں چاہے ہوا ہم کو اُڑا کر

ٹوٹے ہوئے پتوں کی حکایت ہی الگ ہے

پردیس میں رہ کر کوئی کیا پانو جمائے

گملے میں لگے پھول کی قسمت ہی الگ ہے

جتنا ہے ثمر جس پہ وہ اُتنا ہے خمیدہ

پھلدار درختوں کی طبیعت ہی الگ ہے

باہر سے تو لگتا ہے کہ شاداب ہے گلشن

اندر سے ہر اِک پیڑ کی حالت ہی الگ ہے

ہر ایک غزل تجھ سے ہی منسوب ہے میری

انداز مِرا تیری بدولت ہی الگ ہے

کس کس کو بتاؤں کہ میں بزدل نہیں راغب

اس دور میں مفہومِ شرافت ہی الگ ہے


افتخار راغب

No comments:

Post a Comment