کسی کم ظرف کا احسان مِرا مسئلہ ہے
اب چڑھائی نہیں ڈھلوان مرا مسئلہ ہے
خود کو ترتیب سے رکھتے ہوئے رک جاتا ہوں
مجھ میں ٹھہرا ہوا طوفان مرا مسئلہ ہے
میں کہ برباد بھی آباد نظر آتا ہوں
نظر آتا ہوں کہ پہچان مرا مسئلہ ہے
لا ترے سارے گناہ اپنی جبیں پر لے لوں
چھوڑ ایمان کو ایمان مرا مسئلہ ہے
مجھ کو مُردوں نہیں مَردوں کی طرح دیکھئیے گا
میں جو زندہ ہوں تو زندان مرا مسئلہ ہے
ہاتھ کٹ کر بھی ترے ہاتھ پر رہ جائیں گے
خود سے باندھا ہوا پیمان مرا مسئلہ ہے
بت بنا کر نہ مجھے پُوج کہ میں آدمی ہوں
وجد بھر مجھ میں کہ وجدان مرا مسئلہ ہے
مری کوشش ہے کہ میں خود سے رہا ہو جاؤں
تم سجھتے ہو کہ نروان مرا مسئلہ ہے
مقتلِ مسلک و مذہب میں ازل سے ہوں میں
بات اتنی ہے کہ انسان مرا مسئلہ ہے
کشمکش ہو تو مقامات بدل جاتے ہیں
یعنی اب مجھ سے پریشان مرا مسئلہ ہے
جس جگہ کچھ نہیں سب کچھ ہے وہیں پر شاہد
عدم امکان میں امکان مرا مسئلہ ہے
شاہد ذکی
No comments:
Post a Comment