Sunday 28 July 2024

دریا ہیں پھر بھی ملتے نہیں مجھ سے یار لوگ

 دریا ہیں پھر بھی مِلتے نہیں مجھ سے یار لوگ

جُرأت کہاں کہ صحرا سے ہوں ہم کنار لوگ

جادو فضا کا تھا کہ ہوا میں مِلا تھا زہر

پتھر ہوئے جہاں تھے وہیں بے شمار لوگ

اب سایہ و ثمر کی توقع کہاں رُکے

سُوکھے ہوئے شجر ہیں سرِ رہگزار لوگ

دہشت کُھلی فضا کی قیامت سے کم نہ تھی

گِرتے ہوئے مکانوں میں آ بیٹھے یار لوگ

اک دُوسرے کا حال نہیں پُوچھتا کوئی

اک دُوسرے کی موت پہ ہیں شرمسار لوگ

سُورج چڑھا تو پگھلی بہت چوٹیوں کی برف

آندھی چلی تو اُکھڑے بہت سایہ دار لوگ


منظر سلیم

No comments:

Post a Comment