ذرا ادب سے لیا جائے نام پتھر کا
ابھی ہے کعبے کے اندر قیام پتھر کا
نہ جانے کیا دلِ ماموم پر گزر جاتی
خدا نہ کردہ جو ہوتا امام پتھر کا
ہر ایک ہاتھ میں پتھر بلند ہونے تک
پتہ ہی کب تھا کہ کیا ہے نظام پتھر کا
نہ جانے کون سی منزل ہے یہ سکونت کی
ہے شہرِ شیشہ گراں میں قیام پتھر کا
ان ہی کے دم سے بھرم قربتوں کا قائم ہے
جو سنگِ میل ہیں ان پر سلام پتھر کا
یہ ایک نسبتِ خاطر کی بات ہے ورنہ
کہاں کسی نے سنا ہے کلام پتھر کا
کسی کی آس کو توڑے کسی کا دل توڑے
جہاں میں عام ہے یہ خاص کام پتھر کا
غریبِ شہر ہیں کیا کاروبارِ عشق کریں
نہ کوئی مول ہمارا نہ دام پتھر کا
حرم کی راہ میں ثابت قدم ہمیں تو ہیں
ہمیں تو بدلیں گے اک دن نظام پتھر کا
عباس حیدر زیدی
No comments:
Post a Comment