Sunday 21 July 2024

ذرا ادب سے لیا جائے نام پتھر کا

 ذرا ادب سے لیا جائے نام پتھر کا 

ابھی ہے کعبے کے اندر قیام پتھر  کا 

نہ جانے کیا دلِ ماموم پر گزر جاتی 

خدا نہ کردہ جو ہوتا امام پتھر کا 

ہر ایک ہاتھ میں پتھر بلند ہونے تک 

پتہ ہی کب تھا کہ کیا ہے نظام پتھر کا 

نہ جانے کون سی منزل ہے یہ سکونت کی 

ہے شہرِ شیشہ گراں میں قیام پتھر کا

ان ہی کے دم سے بھرم قربتوں کا قائم ہے 

جو سنگِ میل ہیں ان پر سلام پتھر کا  

یہ ایک نسبتِ خاطر کی بات ہے ورنہ 

کہاں کسی نے سنا ہے کلام پتھر کا

کسی کی آس کو توڑے کسی کا دل توڑے 

جہاں میں عام ہے یہ خاص کام پتھر کا

غریبِ شہر ہیں کیا کاروبارِ عشق کریں 

نہ کوئی مول ہمارا نہ دام پتھر کا  

حرم کی راہ میں ثابت قدم ہمیں تو ہیں 

ہمیں تو بدلیں گے اک دن نظام پتھر کا


عباس حیدر زیدی

No comments:

Post a Comment