زخم میرے دل پہ اک ایسا لگا
اپنی جاں کا روح کو دھڑکا لگا
اس کا چہرہ بھی جو اوروں سا لگا
آسماں پہ چاند مٹی کا لگا
دیکھتا کیا کیا کنار آبجو
خود میں اپنے آپ کو الٹا لگا
خود نمائی کے بھرے اک شہر میں
اپنے قد سے ہر کوئی اونچا لگا
روشنی دل کی اچانک گل ہوئی
خود کو تھوڑی دیر میں اندھا لگا
سائے میں اس کے طلب کی دھوپ تھی
دھوپ میں وہ نیم کا سایا لگا
زندگی سے ہاتھ ہم نے دھو لیے
وقت اک بہتا ہوا دریا لگا
یٰسین افضال
No comments:
Post a Comment