Monday 22 July 2024

زخم میرے دل پہ اک ایسا لگا

 زخم میرے دل پہ اک ایسا لگا

اپنی جاں کا روح کو دھڑکا لگا

اس کا چہرہ بھی جو اوروں سا لگا

آسماں پہ چاند مٹی کا لگا

دیکھتا کیا کیا کنار آبجو

خود میں اپنے آپ کو الٹا لگا

خود نمائی کے بھرے اک شہر میں

اپنے قد سے ہر کوئی اونچا لگا

روشنی دل کی اچانک گل ہوئی

خود کو تھوڑی دیر میں اندھا لگا

سائے میں اس کے طلب کی دھوپ تھی

دھوپ میں وہ نیم کا سایا لگا

زندگی سے ہاتھ ہم نے دھو لیے

وقت اک بہتا ہوا دریا لگا


یٰسین افضال

No comments:

Post a Comment