مگر نہیں تھا فقط میر خوار میں بھی تھا
کہ اہل درد میں آشفتہ کار میں بھی تھا
صبا کی طرح اسے بھی نہ تھا ثبات کہیں
نہ جانے کیا تھا بہت بے قرار میں بھی تھا
پناہ لینی پڑی تھی مجھے بھی سائے میں
رہین منت دیوار یار میں بھی تھا
ہزار اپنی طبیعت پہ جبر کرتا تھا
میں صبر کرتا تھا بے اختیار میں بھی تھا
یہ کس نے دیکھا کہ مجھ بے نوا کے دامن میں
محبتیں تھیں بہت سایہ دار میں بھی تھا
آصف جمال
No comments:
Post a Comment