Wednesday 31 July 2024

مگر نہیں تھا فقط میر خوار میں بھی تھا

 مگر نہیں تھا فقط میر خوار میں بھی تھا 

کہ اہل درد میں آشفتہ کار میں بھی تھا 

صبا کی طرح اسے بھی نہ تھا ثبات کہیں 

نہ جانے کیا تھا بہت بے قرار میں بھی تھا 

پناہ لینی پڑی تھی مجھے بھی سائے میں 

رہین منت دیوار یار میں بھی تھا 

ہزار اپنی طبیعت پہ جبر کرتا تھا 

میں صبر کرتا تھا بے اختیار میں بھی تھا 

یہ کس نے دیکھا کہ مجھ بے نوا کے دامن میں 

محبتیں تھیں بہت سایہ دار میں بھی تھا 


آصف جمال

No comments:

Post a Comment