شعور صحرا میں مِرے آنے کی کچھ دُھوم سی ہے
عمل قیس کے اوٹھ جانے کی کچھ دھوم سی ہے
کشور عشق میں شاہی کا مِری ڈنکا ہے
نوبت وصل کے بھجوانے کی کچھ دھوم سی ہے
اب کے میں شور جنوں سے نہیں بچتا یارو
خلق میں میرے جگر کھانے کی کچھ دھوم سی ہے
ہو غضب پرۂ فانوس میں چھپتی شمع
اوس کے پروانوں میں جھنجلانے کی کچھ دھوم سی ہے
لطف النساء امتیاز
No comments:
Post a Comment