رعایا اپنی سے جو فورسز لڑاتا ہے
وہ جان لے کہ ایسے ملک ٹوٹ جاتا ہے
تمہارا فیصلہ یہ ہے کہ حق نہیں دینا؟
یہ تم سے کون ایسے فیصلے کراتا ہے
آباء و جد کو گہرے پانیوں میں ڈبوا کر
یہ میرپور ہی تیرے قمقمے جلاتا ہے
عوام مانگ رہے ہیں رعائیتاً بجلی
ذرا سی مانگ پہ آنکھیں تُو کیوں دکھاتا ہے
یہ ظلم و جبر ہے ایسے نہ کیجیے صاحب
کہ ظلم لوٹ کے اپنے ہی گھر کو آتا ہے
خدا کو اپنی یہ مخلوق بہت پیاری ہے
تُو کس کی شہہ پہ اتنی اکڑ دکھاتا ہے
زمیں پہ آ کے گرے جو اُڑے فضاؤں میں
کہ مسندوں کو تکبر تو کھا ہی جاتا ہے
امیر شہر! بس اتنی سی بات کہنی تھی
کہ ظلم، ظلم ہے؛ بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
افضل ضیائی
No comments:
Post a Comment