Tuesday, 23 July 2024

گھماؤ ایسا کہ شدت نے گھیر لینا ہے

گھماؤ ایسا کہ شدت نے گھیر لینا ہے

کسے خبر تھی محبت نے گھیر لینا ہے

پتا تو ہے نا مجھے چھوڑنے کی سوچتے شخص

تِرے بنا مجھے وحشت نے گھیر لینا ہے

تِری گلی سے جو گزرا تو یہ کھلا مجھ پر

زمانے بعد بھی عادت نے گھیر لینا ہے

نئے خیال مِرے پاس ہوں گے، شعر نئے

مجھے اگر تِری چاہت نے گھیر لینا ہے

مِری ہنسی نے بدلنا ہے رُوپ سِسکی کا

کہ جب تمہاری حقارت نے گھیر لینا ہے

نیا مقام ملے گا محبتوں میں، مجھے

اگر اداسی کی شہرت نے گھیر لینا ہے

وہ میرے مدِ مقابل ہے جس کو میرے بغیر

ہر ایری غیری مصیبت نے گھیر لینا ہے

گھماؤ ایسا کہ شدت نے گھیر لینا ہے

کسے خبر تھی محبت نے گھیر لینا ہے


عامر بلوچ 

No comments:

Post a Comment