خود اپنے کھوج میں جانے کدھر نکلتے رہے
کوئی نہیں تھا سو سائے کے ساتھ چلتے رہے
زبان سے تو محبت کے پھول جھڑتے تھے
پر آستینوں میں نفرت کے سانپ پلتے رہے
ملا نہ کچھ تو بالآخر بہ امر مجبوری
سلف کا جرم زمیں زادگی نگلتے رہے
تپش بڑھائی جب اس نے بدن کے شعلوں کی
تو ہم بھی برف کی مانند تھے پگھلتے رہے
کبھی کہیں نہ کہیں تو مجھے ٹہرنا تھا
میں ساتھ چلتا رہا کارواں بدلتے رہے
پیالہ جام خیال وصال سے پی کر
کبھی بہکتے رہے اور کبھی سنبھلتے رہے
میں شاعری میں وہ منظر کبھی سما نہ سکا
سو جتنے درد تھے سینے میں ہی مچلتے رہے
مبارک قاضی
بلوچی شاعری سے اردو ترجمہ
No comments:
Post a Comment