Thursday 25 July 2024

خود اپنے کھوج میں جانے کدھر نکلتے رہے

 خود اپنے کھوج میں جانے کدھر نکلتے رہے

کوئی نہیں تھا سو سائے کے ساتھ چلتے رہے

زبان سے تو محبت کے پھول جھڑتے تھے

پر آستینوں میں نفرت کے سانپ پلتے رہے

ملا نہ کچھ تو بالآخر بہ امر مجبوری

سلف کا جرم زمیں زادگی نگلتے رہے

تپش بڑھائی جب اس نے بدن کے شعلوں کی

تو ہم بھی برف کی مانند تھے پگھلتے رہے

کبھی کہیں نہ کہیں تو مجھے ٹہرنا تھا

میں ساتھ چلتا رہا کارواں بدلتے رہے

پیالہ جام خیال وصال سے پی کر

کبھی بہکتے رہے اور کبھی سنبھلتے رہے

میں شاعری میں وہ منظر کبھی سما نہ سکا

سو جتنے درد تھے سینے میں ہی مچلتے رہے


مبارک قاضی

بلوچی شاعری سے اردو ترجمہ

No comments:

Post a Comment