محبتوں میں حساب ہو گا، یہ طے کہاں تھا
ہر ایک لمحہ عذاب ہو گا، یہ طے کہاں تھا
یہ طے ہوا تھا وفا کی شمع جلا کرے گی
اندھیرا ہم پہ عتاب ہو گا، یہ طے کہاں تھا
خزاں نہ آئے گی زندگی میں کبھی ہماری
اداس بیلا گلاب ہو گا، یہ طے کہاں تھا
ہماری نظریں سوال بن کر اٹھا کریں گی
سکوت لب پر جواب ہو گا، یہ طے کہاں تھا
یقیں دلایا تھا ساتھ مل کر رہا کرو گے
کہ بیچ اپنے چناب ہو گا، یہ طے کہاں تھا
عذاب ہوں گی پلک جھپکنے تلک کی دوری
وصال اپنا بھی خواب ہو گا، یہ طے کہاں تھا
یہ پھول بن کر مہک اٹھیں گے خیال میرے
مزاج اتنا خراب ہو گا، یہ طے کہاں تھا
مجھے پکاریں گے تو کہیں گے خوشی ملے گی
کہ نام اپنا جناب ہو گا، یہ طے کہاں تھا
نیلوفر نور
No comments:
Post a Comment