دِلوں کا درد کہنے میں چھہتّر سال لگتے ہیں
یہاں بس کر اُجڑنے میں چھہتر سال لگتے ہیں
چھہتر سال پہلے بھی غلامی سی غلامی تھی
وہی زِندان سجنے میں چھہتر سال لگتے ہیں
سروں سے میری عورت کے دوپٹے کھینچنے والو
خدا کا ڈر اُترنے میں چھہتر سال لگتے ہیں
تیری وِیگو کے صدقے ہم صفِ بزدل میں بیٹھے ہیں
تمہارا خوف اٌڑنے میں چھہتر سال لگتے ہیں
چھہتر سال پہلے ہم، سُنا تھا پار اُترے ہیں
مگر پھر ڈُوب مرنے میں چھہتر سال لگتے ہیں
میری گِنتی میں اب اکثر یہی حاصل نِکلتا ہے
بے غیرت قوم بننے میں چھہتر سال لگتے ہیں
خلیل الرحمان قمر
چھہتر: 76
No comments:
Post a Comment