Friday 19 July 2024

افق کے سرخ کہرے میں کہستاں ڈوبا ڈوبا ہے

 اسیر


اُفق کے سُرخ کُہرے میں کُہستاں ڈُوبا ڈُوبا ہے

پکھیرُو کُنج میں جھنکار کو اپنی سموتے ہیں

تلاطم گھاس کے بن کا تھما، تارے درختوں کی

گھنی شاخوں کے آویزاں میں موتی سے پروتے ہیں

سبھی سکھیاں گھروں کو لے کے گاگر جا چکیں کب کی

دریچوں سے اب ان کی روشنی رہ رہ کے چھنتی ہے

دُھواں چُولہوں کا حلقہ حلقہ لہراتا ہے آنگن میں

اُداسی شام کی اک زمزمہ اک گیت بنتی ہے

یہ پانی جس نے دی پُھولوں کو خُوشبو دوب کو رنگت

حلاوت گھول دی آزاد چڑیوں کے ترنم میں

دہکتے زرد ٹیلوں کے دلوں کو خُنکیاں بخشیں

ڈھلا آخر یہ کیسے میرے آزُردہ تبسم میں


شفیق فاطمہ شعریٰ

No comments:

Post a Comment